نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

گملوں میں آسانی سے سبزیاں اگائیں ۔

 

 گھر بیٹھےمدافعتی نظام کو متحرک  رکھنے والی قدرتی خوراک حاصل کریں۔



گھریلو باغبانی نہ صرف ایک  صحت مند سرگرمی ہے بلکہ ہم اپنے  گھر میں ہی آلودگی اور کیمیکل کے اثرات سے پاک سبزیوں کا لطف اٹھا سکتے ہیں۔ اگر شوق ہے تو اس مضمون کے ذریعے موسم گرما میں سبزیوں کی  گھریلو سطح پر بوائی کی معلومات حاصل کریں۔اور حقیقت میں  مدافعتی نظام کو متحرک رکھنے والی قدرتی خوراک حاصل کریں۔



موسم گرما کی سبزیاں اگانے کے لیے پندرہ فروری سے بہترین وقت شروع ہوجاتا ہے فروری سے مارچ اپریل تک سبزیوں کے بیج بوئے جاسکتے ہیں کچھ علاقوں میں اپریل کے بعد بھی بیج بوسکتے ہیں لیکن سخت گرمی اور لو میں بیجوں سے پودے نکلنا مشکل ہوتا ہے۔جن گملوں میں سبزی اگائی جائے وہ گملہ بارہ انچ سے بڑا ہو۔  گملہ جتنا بڑا ہوگا پودے کی نشوونما بھی اچھی ہوگی اور سبزی بھی وافر مقدار میں میسر آسکے گی سبزیوں کے لیے موسم گرما میں صبح کی پانچ سے چھ گھنٹے کی دھوپ لازمی ہوتی ہے۔ سبزی کے پودے کو صبح ایک بار پانی لازمی دیں تیز دھوپ اور لو سے بچاؤ کے  لیے گرین نیٹ کا استعمال بھی کرسکتے ہیں پودے کو گرمی کی صورت میں  بھی ایک سے زیادہ بار پانی نہ دیں بار بارپانی دینے سے پودوں پر مختلف کیڑوں اور بیماریوں کا حملہ ہوسکتا ہے جس گملے میں سبزی اگائی جائے اس کے نچلے حصے میں زائد پانی کے اخراج کے  لیےسوراخ ضرور  رکھا جائے۔ پودے اگانے کے لیے بالو مٹی اور گوبر کھاد کا استعمال کریں کھاد اچھی طرح ڈی کمپوسٹ ہونا ضروری ہے کچن کے کچرے سے بنائی جانے والی کھاد بھی اس میں شامل کرسکتے ہیں سبزی آنے پر ہر ہفتہ لکویڈ فرٹیلائزرز جوکہ کچن کے کچرے اور گوبر کھاد سے تیار کیا گیا ہو پودے میں لازمی دیں اگر سبزی کے پودوں کے ساتھ کچھ پھولوں کے گملے بھی رکھ لیے  جائیں تو بہت اچھا ہے کیونکہ پھولوں کو دیکھ کر بہت سے مفید کیڑے شہد کی مکھیاں اور تتلیاں آئیں گی تو وہ سبزی کے پھولوں پر بھی ضرور بیٹھنا پسند کریں گی اس طرح سبزی کے پھولوں کی پولینیشن آسانی کے ساتھ ہوسکتی ہے میں سبزی کے پودوں میں گیندے کے پھول لگانا پسند کرتی ہوں جب تک اگ سکتے ہیں ضرور لگاتی ہوں کیونکہ ان پھولوں میں ایسی تاثیر ہے کہ مٹی کی کوالٹی بھی عمدہ رہتی ہے اور دوسرے مضررساں کیڑے اور پودوں کی بیماریاں ان پر حملہ نہیں کرتی ہیں   تمام سبزی کے پودوں میں ان سب باتوں کا خیال رکھیں تو بہت کم قیمت میں  موسم کی سبزی گھر بیٹھے نہایت آسانی کے ساتھ حاصل کرسکتے ہیں جو صحت کے لیےبھی مفید ہوں گی۔



اس موسم میں ہم جو سبزیاں آسانی سے اگا سکتے ہیں ۔ان میں سے کچھ بیجوں کی پہلے پنیری تیار کی جاتی ہے اور کچھ بیجوں کو جہاں پودا لگانا ہو براہ راست زمین میں بودیا جاتا ہے عام طور سے بیلوں والی سبزیوں کو براہ راست ہی لگاتے ہیں کیونکہ ان کی پنیری بنائی جائے تو پودا شفٹ کرتے ہوئے خراب ہوسکتا ہے اگر بہت سے بیج ایک ساتھ بودئے گئے ہوں تو جلد ہی انھیں نکال کر مناسب جگہ پر لگادیں ۔ اس موسم میں کچھ جڑوں والی سبزیاں بھی لگائی جاتی ہیں جیسے ادرک ،ہلدی،اروی،آلو وغیرہ



اس موسم میں درج ذیل سبزیاں لگائی جاسکتی ہیں۔

آلو

آلو کو باقی سبزیوں کی طرح نہیں لگاتے ہیں گملے میں تہہ در تہہ لگاتے جاتے ہیں نیچے جڑیں بنتی رہتی ہیں اور آلو تیار ہوتے رہتے ہیں عام طور سے 110سے 150دن کے اندر آلو تیار ہوجاتا ہے ۔

شکر قند

شکر قند کو بھی اس موسم میں لگاسکتے ہیں 140 سے 150 دن میں تیار ہوجاتی ہے ۔

ادرک

گھر میں رکھی ادرک میں ہری گانٹھیں بننے لگیں تو اسے مٹی میں لگادیں ۔

ہلدی

ہلدی میں بھی جب گانٹھیں بننے لگیں تو اسے مٹی میں لگادیں اسے ادرک کی طرح ہی اگایا جاتا ہے۔

اروی

گھر میں آئی اروی کو مٹی میں لگادیں کچھ دن میں ہی پتے نکل آئیں گے اس پتوں کو بھی مختلف پکوان میں استعمال کرسکتے ہیں۔

کدو

کدو کی بیل ہوتی ہے اس کی بیل کو نیچے ہی پھیلایا جاتا ہے۔

پودینہ

گھر میں آئے پودینہ کی ڈنڈیوں کو ایک ہفتہ پانی سے بھرے گلاس میں ڈال کر روشنی میں رکھا جاتا ہے جب جڑیں نکل آئیں تو مٹی میں لگادیں

لوکی

اوپر چڑھنے والی بیل ہے اس کے اوپر چڑھانے کے لیے کوئی سپورٹ سسٹم ضروری ہے۔

ٹنڈے

ٹنڈے کو بھی لوکی کی طرح لگاتے ہیں دو ماہ میں پھول اور پھر پھل آجاتا ہے

پالک

پالک کو پورا سال ہی لگاسکتے ہیں تین چار دن میں ہی پودے نکل آتے ہیں ۔

ٹماٹر

ٹماٹر کے پہلے پنیری کے پودے تیار کرتے ہیں جب پودا بیس پچیس دن کا ہوجائے تب اسے اس کو جہاں لگانا ہوتا ہے لگادیا جاتا ہے ڈیڑھ ماہ میں پھول نکل آ تے ہیں اور دوسے ڈھائی ماہ میں ٹماٹر بننا شروع ہوجاتے ہیں

ہرا دھنیاں

اس کے بیجوں کو رات بھر پانی میں بھگا کر رکھیں پھر صبح اسے ہلکا سا ہاتھ کا دباؤ دے کر دوحصوں میں تقسیم کردیں کیونکہ ایک بیج سے دو پودے نکلتے ہیں پھر ان بیجوں کو تھوڑا دور دور بکھیر کر ڈالدیں ایک ہفتہ میں پودے نکل آئیں گے ۔

بینگن

بینگن کی بھی پہلے پنیری تیار کی جاتی ہے اس کا پودا دوسے تین سال تک پھل دیتا رہتا ہے ۔

مرچ

مرچ کی بھی پنیری تیار کی جاتی ہے تین سے چار سال تک پودا رہتا ہے ۔

لال مولی

لال مولی کو فروری میں بھی اگاسکتے ہیں ایک ماہ میں ہی تیار ہوجاتی ہے ۔

توری

توری کی بیل ہوتی ہے اسے سپورٹ سسٹم کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ اوپر پھیلائی جاسکے۔

کریلہ

کریلہ اس موسم میں بہت آسانی کے ساتھ پھلتا پھولتاہے۔

بھنڈی

بھنڈی بھی نہایت آسانی کے ساتھ اگائی جاسکتی ہے بیج بونے کے ایک ہفتہ کے اندر پودے نکل آتے ہیں ۔

کھیرا /ککڑی

یہ دونوں سبزیاں ایک ہی طرح سے لگائی جاتی ہیں اور اس موسم میں خوب اچھی طرح نشوونما ہوتی ہے۔

میتھی

میتھی کو بھی فروری میں لگاسکتے ہیں بہت جلد تیار ہوجاتی ہے۔

ضروری ہے کہ موسم گرما میں لگائی جانے والی سبزیوں کے پودوں کو دوپہر کی تیز دھوپ سے بچایا جائے صبح یا شام کی چار سے پانچ گھنٹے کی دھوپ  ان کے لیے کافی ہے ۔



تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

معیاری سبزی کے لیے نامیاتی کھاد کی تیاری

زمین کی زرخیزی بڑھانے کے لیے مختلف قسم کی کھاد کا  استعمال ضروری ہوتا ہے۔کھاد میں دیگر کار آمد اشیا کے علاوہ نائٹروجن کے مرکبات بھی موجود ہوتے ہیں۔ جب پودوں کو پانی دیا جاتا ہے تو یہ مرکبات پانی میں حل ہو جاتے ہیں اور پھر پودے کی جڑیں اُن کو چوس کر تنے، شاخوں اور پتوں وغیرہ تک پہنچا دیتی ہیں۔ جانوروں کے فضلے سے جو کھاد خود بخود بن جاتی ہے اُس کی مقدار محدود ہے اور تمام ضروریات کو پورا نہیں کر سکتی ۔ لہٰذا بعض کیمیائی مرکبات مصنوعی کھاد کے طور پر استعمال کیے جاتے ہیں  جن کے ذیلی اثرات انسانی جسم پر مضر ردعمل  پیدا کرسکتے ہیں۔ البتہ نامیاتی کھاد  کی تیاری سے اس خرابی سے محفوظ رہا جاسکتا ہے جس میں قدرتی طور پر  نائٹروجن کے مرکبات حل ہوجاتے ہیں اور پودوں کو غذائیت فراہم کرتے ہیں۔ گھریلو باغبانی کے لیے  کھاد اپنے گھر میں  خودہی  تیار کریں ہمارے گھروں میں روزانہ ہی مختلف قسم کا کچرا جمع ہوجاتا ہے اس کچرے کی ایک بڑی مقدار کچن سے نکلنے والا  کچرا ہے اگر ہم اس کچرے کو ضائع کرنے کی بجائے اس سے اپنے گھر میں ہی  اپنے پودوں کے لئے کھ...

مثبت سوچ سے زندگی سدھاریں

انسانی ذہن پر سوچ کا بہت زیادہ عمل دخل ہوتا ہے ز ندگی کا ہر منظر سوچ سے ہی جنم لیتا ہے۔ سوچ سے انسانی جذبات بنتے ہیں اور اس سے عمل وجود میں آتا ہے سوچ دو طرح کی ہوتی ہے۔ مثبت سوچ اور منفی سوچ یعنی اچھی اور بری سوچ کامیابی اور ناکامی ان ہی دو سوچوں کا نتیجہ ہے۔  خیالات کا ذ ہن میں پیدا ہونا ایک قدرتی رجحان ہے مگر خیال کو سوچ میں تبدیل کرنا انسان کے اختیار میں ہے۔ انسان کے خیالات ہی اس کی شخصیت کو بنانے اور بگاڑنے کا موجب ہے مثبت خیالات مثبت سوچ کی طرف رہنمائی کرتے ہیں مثبت سوچ کامیابی کی طرف لے جانے والی وہ سڑک ہے جس پر چلنے والا اپنی منزل کو پالیتا ہے ۔ہماری تمام حرکات  ہماری سوچ کے زیراثرہوتی ہیں یعنی یہ ہماری سوچ ہی ہےجو ہم سے عوامل سرزد کراتی ہے مثبت سوچ دراصل اچھی اور صحیح سوچ ھےایک مثبت سوچ کا حامل انسان یقیناً مثبت خیالات اور تخلیقات کو ہی منظر عام پر لائے گا۔مثبت سوچ اچھے خیالات کی وجہ بنتی ھے جس کے انسانی صحت پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔زندگی میں کامیابی کا اسی فیصد انحصار  ہمارے رویے پر ہے   اور رویہ  سوچ سے جنم لیتا ہےمثبت سوچ سے مثبت ...