نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

گھریلو باغبانی خاندانی صحت کے تحفظ کے لیے ایک قدم

ماہرین کی رائے میں  ماحولیاتی آلودگی ہماری خوراک کے ذرائع   پر منفی اثرات ڈال رہی ہے۔ اورہماری علاقائی  کاشت کاری  کو اس سے شدید خطرات لاحق ہیں۔ صنعتوں سے بہنے والے فضلے کو سبزیوں کی کاشت میں  آب رسانی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے  جو کہ زہروں سے آلودہ ہوتے ہیں اور ان میں غیر صاف شدہ  کیمیکلوں کی بڑی مقدار بھی شامل ہوتی ہے۔ مصنوعی کھادیں  اور کیڑے مار زہروں کا  بے دریغ استعمال بھی  انسانی صحت کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے۔  کیمیکل میں بھیگی ادرک، ڈیٹر جنٹ سے صاف کیا گیا لہسن ، ترکاریوں کو  چمکانے کے لیے تیزاب کا استعمال اور   مضر صحت مصنوعی رنگوں کا استعمال  اب میڈیا کے توسط سے عام لوگوں پر عیاں ہوچکا ہے۔ جبکہ پھلوں اور سبزیوں کی  کی قیمتوں میں غیر متوقع اضافہ بھی ہماری  متوازن خوراک کے چناؤ میں بڑی رکاوٹ ہے۔ سبزیوں اور پھلوں کی  آسمان سے باتیں کرتی  قیمتوں کے باعث  متوسط طبقے کے لوگوں کے لیے متوازن خوراک  کا استعمال مشکل تر ہوتا جارہا ہے اور عام صحت پر اس کے برے اثرات پڑ رہے ہیں۔ ان تمام مسائل کی موجودگی میں  اس وقت گھریلو باغبانی کی آگہی پیدا کرنا بہت ضروری ہے۔ گھر میں اگر سبزیاں اگائی جائیں تو ان خطرات میں خاطر خواہ کمی لائی جاسکتی ہے اور کم از کم خرچے میں تازہ اور  صحت بخش سبزیاں اور پھل حاصل کیے جاسکتے ہیں۔


 

مہنگائی روزبروز بڑھتی ہی جا رہی ہے غریب تو غریب متوسط طبقہ کے افراد کے لئے بھی دووقت کی روٹی حاصل کرنا ایک عذاب سے کم نہیں سبزیاں اور پھل ان کی قیمتیں تو آسمان سے باتیں کرتی نظر آتی ہیں اور اگر میسر بھی آجائیں تو ان کے اوپر کیڑے مار زہروں کےاتنے زیادہ اثرات پا ئے جاتے ہیں جس کی  وجہ سے شدید قسم کی بیماریاں جنم لے رہی ہیں اور نتیجہ کے طور پر اموات میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔کیمیکلز سے آلودہ  غذائی اجناس کے استعمال سے کینسر ، بچوں کی پیدائش میں رکاوٹ ،سانس کی بیماریاں ،دل کی بیماریو ں جیسے اور بھی خطرناک امراض پیدا ہو رہے ہیں۔  ہم جو غذا کھا رہے ہیں اس کا ہم اندازہ ہی  نہیں لگا سکتے کہ ہم کتنی غذا اور کتنا زہر کھا رہے ہیں بعض اوقات ہماری غذا ہی  ہماری خاموش قاتل بن جاتی ہے ۔

گھریلو باغبانی  دراصل قدرتی   نامیاتی کاشت کاری کی ایک قسم ہے   اور انسانی صحت  کے حوالے سے  بہت سے مسائل کا حل ہے  اس سے  کیمیکلز سے پاک تازہ سبزیاں تو میسر آتی  ہی ہیں ساتھ  ہی گھر کی خوبصورتی میں بھی  اضافہ ہوتا ہے ۔ بہت سے لوگوں کے ذہن میں یہ سوال گردش کررہا ہوگا کہ نامیاتی کاشت کاری ہے کیا ؟

اس قسم کی باغبانی میں کھاد کے استعمال سے لے کرکیڑے مار اجزأ  تک جو بھی  کچھ استعمال کرتے ہیں وہ سب اپنے گھر میں گھر کی حیاتیاتی چیزوں سے ہی بناسکتے ہیں اور جو کھاد ہم خود بناتے ہیں وہ مارکیٹ میں پائی جانے والی تمام قسم کی کھادوں سے منفرد و اعلٰی ہوتی ہے ۔ نامیاتی باغبانی میں کیوں کہ کوئی بھی کیمیکل یا مضر صحت شے استعمال نہیں ہوتی ہے اس لئے پھلوں اور سبزیوں کا معیار بھی بہترین ہوتا ہے اور انسانی جسم بھی صحت مند رہتا ہے ۔


سبزیاں اگانے کے لئے گھر میں کوئی بہت لمبی چوڑی جگہ کی ضرورت نہیں ہوتی ہے  گھر میں اگر کچی زمین میسر  نہیں ہے تو گھر کا کوئی بھی ایسا خالی حصہ جہاں سورج کی روشنی کا گذر  آٹھ سے چھ  گھنٹے   رہتا ہو اس مقصد کے لئے بہترین  ہے  گھر کی چھت یا بالکونی میں آسانی کے ساتھ سبزیاں اگائی جاسکتی ہیں۔سبزیاں اگانے کا آغاز  گھر کے پرانے اور فالتو  برتنوں سے کریں یہ فالتو برتن، پلاسٹک کے خالی بیگ ،ڈبے ،پلاسٹک کی بوتلیں ،بھی ہوسکتی ہیں جو ایک کاٹھ کباڑ کی شکل میں جمع ہوکر گھر میں گندگی کا باعث بنتی ہیں  ان میں اگر پودے اگالئے جائیں تو جہاں گھر سے کباڑ سمٹ جائے گا وہیں یہ کباڑ گھر کی خوبصورتی کا باعث بھی بنے گا اور تازہ سبزیاں مفت میں حاصل ہوجائیں گی  ان اشیأ  کے استعمال میں یہ خیال رہے کہ پانی کے نکاس کے لئے پیندے میں  سوراخ کیا جائے تاکہ پانی کھڑا نہ رہے ورنہ کیڑے مکوڑے پیدا ہوسکتے ہیں اور پانی کی زیادتی کی وجہ سے پودے گل سڑ سکتے ہیں ۔سبزیاں لگاتے ہوئے یہ بھی خیال رہے کہ وہ سبزی لگائی جائے جو گھر کے افراد کی من پسند ہو ۔جو برتن آپ نے سبزی لگانے کے لئے منتخب کئے ہیں ان میں گھر کی بنی ہوئی کھاد ڈالیں گے یہ کھاد بھی کچن سے نکلنے والے کچرے کی ہوگی  جس میں سبزیوں اور پھلوں کے چھلکے شامل ہونگے اس کھاد کے استعمال سے سبزیوں میں کیڑا لگنے کا مسئلہ بھی بہت کم پیدا ہوتا ہے ۔اس کھاد میں گائے کے گوبر کی کھاد بھی  ایک توازن سے ملا سکتے ہیں ۔بیج بوتے ہوئے یہ معلومات ضروری ہے کہ جو بیج ہم بو رہے ہیں اس کی پنیری بنے گی یا  براہ راست پودا بنے گا  پنیری ایسے سبزی یا پھولوں کے چھوٹے چھوٹے پودے ہوتے ہیں جو بیج بونے کے بعد پندرہ سے بیس دن کےہوجائیں  یا کم از کم چار سے آٹھ پتے نکل آئیں تو انہیں دوسرے گملے میں الگ الگ منتقل کرنا ہوتا ہے اگر ایسا نہیں کیا گیا تو پودے کی نشوونما نہیں ہوسکے گی اور وہ مر جا ئے گا ۔بہتر ہے کہ پہلے چھوٹے گملے میں لگایا جائے پھر کسی بڑے گملے میں منتقل کردیں ۔ سبزیاں لگانے کے لئے جن بیجوں کی ضرورت ہوگی وہ کسی بھی نرسری سے آسانی سے مل سکتے ہیں بیج حاصل کرنے کا دوسرا طریقہ یہ بھی ہے کہ جو سبزیاں گھر میں آئیں ان کے پکے ہوئے بیجوں کو سنبھال کے رکھ لیا جائے اور جب گھر کے پودوں پر سبزیاں آئیں تو  ایک دو سبزیوں کو پودے پر ہی سوکھنے دیں سوکھنے کے بعد اس میں سے بیج نکا ل کر رکھ لئے جائیں اور  جب چاہیں  استعمال میں لائیں ۔بیج بونے کے دس دن کے اندر پودے نکل آتے ہیں اس وقت پودا بہت نازک ہوتا ہے اسے بہت زیادہ نگہداشت کی ضرورت ہوتی ہے اس وقت پانی بھی بہت احتیاط سے ڈالا جائے اگر سبزی کی پنیری لگانا ہے تو بیس دن کے اندر اسے دوسرے گملے میں الگ الگ منتقل کردیں  توری ، کریلہ ،  مختلف قسم کی پھلیاں ، ٹنڈے ، ککڑی ، کھیرا ، لوکی وغیرہ کی بیلیں ہوتی ہیں انہیں بیج بوتے ہوئے کسی بڑے برتن میں لگائیں تا کہ ان کی نشوونما میں رکاوٹ نہ ہو ۔

گھر میں سبزیاں اگاتے ہوئے جب کھاد گھر کی بنی ہوئی استعمال کی جائے گی تو پودا بیماریوں سے کافی حد تک بچا رہتا ہے لیکن اگر نامناسب موسمی حالات ،سورج کی روشنی کی کمی ، یا پانی کی زیادتی کی وجہ سے پودے پر بیماری کا حملہ ہوجائے یا کیڑے مکوڑوں کا مسکن بن جائے تو گھریلو کیڑے مار  اشیأ  مثلا نیم کے پتوں اور لہسن کےپانی استعمال کیا جائے ۔ حکمت اور ہومیو پیتھک دواؤں کے استعمال سے بھی اس مسئلے پر قابو پایا جاسکتا ہے میری تحقیق کے مطابق ہومیو پیتھک ادویات  پودوں پر کیڑا لگنے ، پودوں کے بیمار ہونے ، پودوں اور پھلوں اور پھولوں کی نشوونما کے لئے بہترین ہیں  ان کے استعمال سے پودوں یا ان پر موجود سبزیوں اور پھلوں کو کوئی نقصان بھی نہیں ہوتا نتیجہ کے طور پر انسانی صحت بھی بہتر رہتی ہے اورجب صحت بہتر ہوگی  تو اس کا  مثبت اثر  ہمارے ماحول پر بھی پڑے گا  اور خوشگوار یت پروان چڑھے گی۔ 



تبصرے

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

گملوں میں آسانی سے سبزیاں اگائیں ۔

    گھر بیٹھےمدافعتی نظام کو متحرک   رکھنے والی قدرتی خوراک حاصل کریں۔ گھریلو باغبانی نہ صرف ایک   صحت مند سرگرمی ہے بلکہ ہم اپنے   گھر میں ہی آلودگی اور کیمیکل کے اثرات سے پاک سبزیوں کا لطف اٹھا سکتے ہیں۔ اگر شوق ہے تو اس مضمون کے ذریعے موسم گرما میں سبزیوں کی   گھریلو سطح پر بوائی کی معلومات حاصل کریں۔اور حقیقت میں   مدافعتی نظام کو متحرک رکھنے والی قدرتی خوراک حاصل کریں۔ موسم گرما کی سبزیاں اگانے کے لیے پندرہ فروری سے بہترین وقت شروع ہوجاتا ہے فروری سے مارچ اپریل تک سبزیوں کے بیج بوئے جاسکتے ہیں کچھ علاقوں میں اپریل کے بعد بھی بیج بوسکتے ہیں لیکن سخت گرمی اور لو میں بیجوں سے پودے نکلنا مشکل ہوتا ہے۔جن گملوں میں سبزی اگائی جائے وہ گملہ بارہ انچ سے بڑا ہو۔   گملہ جتنا بڑا ہوگا پودے کی نشوونما بھی اچھی ہوگی اور سبزی بھی وافر مقدار میں میسر آسکے گی سبزیوں کے لیے موسم گرما میں صبح کی پانچ سے چھ گھنٹے کی دھوپ لازمی ہوتی ہے۔ سبزی کے پودے کو صبح ایک بار پانی لازمی دیں تیز دھوپ اور لو سے بچاؤ کے   لیے گرین نیٹ کا استعمال بھی کرسکتے ہیں پودے کو گ...

معیاری سبزی کے لیے نامیاتی کھاد کی تیاری

زمین کی زرخیزی بڑھانے کے لیے مختلف قسم کی کھاد کا  استعمال ضروری ہوتا ہے۔کھاد میں دیگر کار آمد اشیا کے علاوہ نائٹروجن کے مرکبات بھی موجود ہوتے ہیں۔ جب پودوں کو پانی دیا جاتا ہے تو یہ مرکبات پانی میں حل ہو جاتے ہیں اور پھر پودے کی جڑیں اُن کو چوس کر تنے، شاخوں اور پتوں وغیرہ تک پہنچا دیتی ہیں۔ جانوروں کے فضلے سے جو کھاد خود بخود بن جاتی ہے اُس کی مقدار محدود ہے اور تمام ضروریات کو پورا نہیں کر سکتی ۔ لہٰذا بعض کیمیائی مرکبات مصنوعی کھاد کے طور پر استعمال کیے جاتے ہیں  جن کے ذیلی اثرات انسانی جسم پر مضر ردعمل  پیدا کرسکتے ہیں۔ البتہ نامیاتی کھاد  کی تیاری سے اس خرابی سے محفوظ رہا جاسکتا ہے جس میں قدرتی طور پر  نائٹروجن کے مرکبات حل ہوجاتے ہیں اور پودوں کو غذائیت فراہم کرتے ہیں۔ گھریلو باغبانی کے لیے  کھاد اپنے گھر میں  خودہی  تیار کریں ہمارے گھروں میں روزانہ ہی مختلف قسم کا کچرا جمع ہوجاتا ہے اس کچرے کی ایک بڑی مقدار کچن سے نکلنے والا  کچرا ہے اگر ہم اس کچرے کو ضائع کرنے کی بجائے اس سے اپنے گھر میں ہی  اپنے پودوں کے لئے کھ...

مثبت سوچ سے زندگی سدھاریں

انسانی ذہن پر سوچ کا بہت زیادہ عمل دخل ہوتا ہے ز ندگی کا ہر منظر سوچ سے ہی جنم لیتا ہے۔ سوچ سے انسانی جذبات بنتے ہیں اور اس سے عمل وجود میں آتا ہے سوچ دو طرح کی ہوتی ہے۔ مثبت سوچ اور منفی سوچ یعنی اچھی اور بری سوچ کامیابی اور ناکامی ان ہی دو سوچوں کا نتیجہ ہے۔  خیالات کا ذ ہن میں پیدا ہونا ایک قدرتی رجحان ہے مگر خیال کو سوچ میں تبدیل کرنا انسان کے اختیار میں ہے۔ انسان کے خیالات ہی اس کی شخصیت کو بنانے اور بگاڑنے کا موجب ہے مثبت خیالات مثبت سوچ کی طرف رہنمائی کرتے ہیں مثبت سوچ کامیابی کی طرف لے جانے والی وہ سڑک ہے جس پر چلنے والا اپنی منزل کو پالیتا ہے ۔ہماری تمام حرکات  ہماری سوچ کے زیراثرہوتی ہیں یعنی یہ ہماری سوچ ہی ہےجو ہم سے عوامل سرزد کراتی ہے مثبت سوچ دراصل اچھی اور صحیح سوچ ھےایک مثبت سوچ کا حامل انسان یقیناً مثبت خیالات اور تخلیقات کو ہی منظر عام پر لائے گا۔مثبت سوچ اچھے خیالات کی وجہ بنتی ھے جس کے انسانی صحت پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔زندگی میں کامیابی کا اسی فیصد انحصار  ہمارے رویے پر ہے   اور رویہ  سوچ سے جنم لیتا ہےمثبت سوچ سے مثبت ...