نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

ایک تعمیری اور صحت بخش مشغلہ باغبانی قومی احساس جاگنے کا منتظر ہے


زندگی کی یہ اہم  مہارت بچوں کے لیے لازمی قرار دی جائے


دور حاضر کے مشینی دور میں انسانی زندگی کی ساخت بھی  مشین کی مانند ہوتی جارہی ہےجسمانی آزمائش و حرکات کی کمی کے باعث ذہن بھی ماؤف ہوتے جارہے ہیں جس کے نتیجہ میں بیماریاں بھی اتنی ہی تیزی کے ساتھ جسم انسانی پر حملہ آور ہورہی ہیں جبکہ انسانی فطرت ہے کہ  ذہن ہمہ وقت منصوبہ بندی کرے اور جسم  کسی نہ کسی کام میں مشغول ر ہے ۔مقولہ بھی مشہور ہے کہ بیکار انسان کا  دماغ شیطان کا کارخانہ بن جاتا ہے بچے جو کہ زندگی کے ہرنئے دن کے ساتھ مسلسل پروان چڑھ رہے ہیں کچھ نہ کچھ سیکھ رہے ہیں اور کچھ نیا کرنے کے لیے ہر وقت تیار ہیں انھیں صحت مندانہ تفریحی  و تعمیری سرگرمی کی ضرورت رہتی ہے جس سے وہ لطف اندوز بھی ہوسکیں آنے والے زندگی کے کٹھن سفر کی تیاری بھی کرسکیں۔
باغبانی بچوں کو زندگی کی ایک اہم مہارت سیکھنے کا موقع فراہم کرتی ہےاسکول کے نصاب میں اس کو نظر انداز کردیا جاتا ہے انہیں صرف اتنی معلومات دی جاتی ہیں کہ پودے کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرتے ہیں اور آکسیجن خارج کرتے ہیں جبکہ ماحولیاتی آگاہی اور اس کے فوائد سمیٹنے کے لیے بہترین طریقہ باغبانی ہے۔ارد گرد نظر دوڑائیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ بچے کیسے بھی ہوں کسی بھی عمر کے ہوں مٹی اور پانی سے کھیلنا بچوں کا محبوب مشغلہ ہوتا ہے فطرت سے قربت انسانی جبلت میں شامل ہے باغبانی انھیں فطرت اور زندگی کے دائرے کو سمجھنے میں مدد فراہم کرسکتی ہے سورج کی روشنی کا حصول، پودوں کی نشوونمااور پھر باغیچہ میں پرندوں اور مختلف کیڑے مکوڑوں کے ساتھ میل جول سب مل کر بچوں کے ذہن کے دریچےکھولتے ہیں وہ نئی باتیں سوچنے اور سمجھنے کے قابل ہوتے ہیں ۔ باغبانی ایک ایسا مشغلہ ہے جس کو اپناکر ہر عمر کے افراد خوشی محسوس کرتے ہیں بہت چھوٹے بچے بھی اس میں حصہ لے سکتے ہیں وہ مٹی میں کھیلنے، گڑھے کھودنے اورپودوں کو پانی دینے میں خوشی محسوس کریں گے بہت چھوٹے بچے مٹی اور پانی سے کھیل کر ہی خوش ہوجائیں گے۔ بہت چھوٹے بچوں کو ان کی دلچسپی کی چیزیں دے کر ان پر صرف اس طرح نظر رکھی جائے کہ انہیں یہ احساس رہے کہ وہ اپنی مرضی سے کچھ کررہے ہیں۔ یہ ان کے لیے نہایت خوشگوار احساس ہوگا جب وہ اپنی مرضی سے کچھ وقت گزاریں گے تو ذاتی اعتماد اور فطرت سے اپنائیت کے جذبے سے سرشار ہونگے۔
بڑے بچے ایسے کاموں سے جسمانی مہارت کے ساتھ ساتھ نظم ونسق بھی سیکھتے ہیں اس کے ساتھ ساتھ خوداعتمادی اور ذمہ داری بھی ان کے اندر پروان چڑھتی ہے پودوں کے انتخاب سے لے کر بیج بونے، باغیچہ کی تعمیر وسجاوٹ، پودوں کی دیکھ بھال اور پھر پھل وسبزیوں کے حصول تک بچوں میں آگاہی پیدا ہوتی ہے وہ یہ بات سمجھنے لگتے ہیں کہ سبزیوں اور پھلوں کی صورت میں ہم جو خوراک استعمال کرتے ہیں وہ کتنی جدوجہد اور محنت کا نتیجہ ہوتی ہے ۔باغبانی بچوں میں تخلیقی صلاحیتوں کو متحرک کرتی ہے اس سے بچوں میں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو استعمال کرنے کی ترغیب ملتی ہے ۔
بچوں کی موسم گرما کی تعطیلات ایسی سرگرمیوں کے سیکھنے کے لیے بہترین ہے کیونکہ یہ ایک طویل وقت ہوتا ہے کوشش کی جائے باغبانی میں بچوں کوان کے دوستوں کے ساتھ شریک کیا جائے جب تمام بچے اکھٹے ہوکر وقت گزاریں گے تو وہ ایک دوسرے کو اچھی طرح سمجھ سکیں گے ان میں محبت واتفاق پیدا ہوگا اور ان کے بڑے بھی ان کے ساتھ شامل رہیں تو وہ بچوں کی ذہنی قابلیت اور سوچ کو سمجھ سکیں گے اور یہ سب ایک خوشگوار ماحول میں کام کرنے سے ہی ممکن ہے۔
باغبانی کرنے سے بچوں کے اندر صبر، توجہ، تعاون، ٹیم ورک، اور سماجی میل جول کی مہارت پیدا ہوگی وہ موسم،ماحولیات،غذائیت ، اور تعمیرات کی سائنس کو سمجھ سکیں گے ان کے اندر فطرت سے محبت پیدا ہوگی اس طرح کسی بھی جاندار کو نقصان نہ پہنچانے کی عادت  پیدا ہو گی۔ اس طرح ان میں احترام اور ہمدردی کا جذبہ پروان چڑھے گابچوں کو  جسمانی بڑھوتری کے لیے کیلشیم کی ضرورت ہوتی ہے جو کہ وٹامن ڈی کی موجودگی میں ہی جزوبدن  بن سکتی ہے سورج کی روشنی میں کام کرنے سے وٹامن ڈی وافر مقدار  جسم میں متحرک ہوتی ہے اس طرح بچوں کی جسمانی صحت کو بہتر بنانے کے لیے باغبانی ایک عمدہ مشغلہ ہے۔
باغبانی کی بدولت والدین سبزیوں پھلوں کو بچوں کی خوراک میں آسانی کے ساتھ شامل کرسکتے ہیں اکثر والدین اس بات سے پریشان نظر آتے ہیں کہ ان کے بچے سبزیاں نہیں کھاتے جب کہ سبزیاں بچوں کی نشوونما کے لئے نہایت ضروری ہیں باغبانی کے دوران بچے اپنے ہاتھ سے اپنی پسند کی سبزیاں اگائیں گے اپنے ہاتھ سے بیج بونا، پودوں کے نکلنے کا نظارہ کرنا، ان کی دیکھ بھال کرنا،  انہیں اپنی نظروں کے سامنے بڑاہوتے دیکھنا پھر ان میں پھول پھل آتے دیکھنا ایک خوشگوار تجربہ ہے اپنے ہاتھ سے اگائی سبزیاں وہ ضرور کھانا پسند کریں گے۔
بچوں کے ساتھ باغبانی کرنے کے لیے ضروری نہیں کہ بہت بڑی جگہ درکار ہو اگر جگہ نہ ہو تو دوچار گملے دھوپ میں رکھ کر بھی بچوں کو مصروف رکھا جاسکتا ہے۔
 بچوں کے ساتھ باغبانی کے دوران انہیں بیجوں اور پودوں کی مکمل معلومات دیں ان سے سوالات کریں انہیں ان کی کارکردگی  کے نتیجہ سے آگاہ کرتے رہیں تو ان کا ذوق وشوق بڑھتا جائے گا ۔بچے عام طور پر سورج مکھی کے پھول، آلو، مٹر، ٹماٹر، گاجر، کریلے، مکئی، پیاز، لہسن، تربوز، خربوزہ، اگانے میں دلچسپی لیتے ہیں کیونکہ یہ بیج بھی انھیں آسانی سے میسر آجاتے ہیں اور پودے نکلنا بھی آسان ہوتا  ہے بچوں کو باغبانی کے دوران اچھے اور پائیدار  اوزاردیئے جائیں،   انھیں باغبانی کے لیے دستانے، پانی کا خوبصورت کین بھی دیں ممکن ہو تو باغبانی کا ڈریس بھی تیار کیا جائے تاکہ وہ کام کی اہمیت کو بھی سمجھ سکیں بچوں کو باغبانی کے کام کے بعد اپنے اوزار رکھنے کا سلیقہ بھی سکھا یا جائے ۔اس طرح تفریح کے ساتھ ساتھ بہت کچھ سیکھ سکیں گے
کوشش کریں کہ کانٹے دار پودے بچوں کے باغیچے میں نہ رکھیں ایسے پودے بھی نہ رکھیں جن کو توڑنے سے جلدی بیماریاں انفیکشن یا کوئی اور نقصان ہو بچے خوشبودار پودوں  اور پھولوں کے پودوں سے بھی بہت خوش ہوتے ہیں ایسے پودے باغیچے میں ضرور لگائیں ۔
 بچوں کے کام کو سراہیں ملنے جلنے والوں کو ان کا کام دکھائیں ان کی تعریف کریں اس طرح وہ مزید پرجوش اور سرگرم ہوجائیں گے۔بچوں پر کبھی بھی کام کا دباؤ نہ ڈالیں ورنہ وہ بیزار ہوجائیں گے باغبانی کا مقصد ایک مثبت یاد داشت پیدا کرنا ہے اگر وہ مستقبل میں یہ شوق برقرار نہ رکھ سکے تو کبھی نہ کبھی پیچھے مڑ کر ضرور دیکھیں گے انہیں یہ خوبصورت وقت ہمیشہ یاد رہے گا۔ ۔ یہی بچے مستقبل کے معمار ہیں باغبانی ان کے اندر تعمیری جذبے کی بیداری اور افزائش کے لیے بہت اہم ہے۔


تبصرے

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

گملوں میں آسانی سے سبزیاں اگائیں ۔

    گھر بیٹھےمدافعتی نظام کو متحرک   رکھنے والی قدرتی خوراک حاصل کریں۔ گھریلو باغبانی نہ صرف ایک   صحت مند سرگرمی ہے بلکہ ہم اپنے   گھر میں ہی آلودگی اور کیمیکل کے اثرات سے پاک سبزیوں کا لطف اٹھا سکتے ہیں۔ اگر شوق ہے تو اس مضمون کے ذریعے موسم گرما میں سبزیوں کی   گھریلو سطح پر بوائی کی معلومات حاصل کریں۔اور حقیقت میں   مدافعتی نظام کو متحرک رکھنے والی قدرتی خوراک حاصل کریں۔ موسم گرما کی سبزیاں اگانے کے لیے پندرہ فروری سے بہترین وقت شروع ہوجاتا ہے فروری سے مارچ اپریل تک سبزیوں کے بیج بوئے جاسکتے ہیں کچھ علاقوں میں اپریل کے بعد بھی بیج بوسکتے ہیں لیکن سخت گرمی اور لو میں بیجوں سے پودے نکلنا مشکل ہوتا ہے۔جن گملوں میں سبزی اگائی جائے وہ گملہ بارہ انچ سے بڑا ہو۔   گملہ جتنا بڑا ہوگا پودے کی نشوونما بھی اچھی ہوگی اور سبزی بھی وافر مقدار میں میسر آسکے گی سبزیوں کے لیے موسم گرما میں صبح کی پانچ سے چھ گھنٹے کی دھوپ لازمی ہوتی ہے۔ سبزی کے پودے کو صبح ایک بار پانی لازمی دیں تیز دھوپ اور لو سے بچاؤ کے   لیے گرین نیٹ کا استعمال بھی کرسکتے ہیں پودے کو گ...

معیاری سبزی کے لیے نامیاتی کھاد کی تیاری

زمین کی زرخیزی بڑھانے کے لیے مختلف قسم کی کھاد کا  استعمال ضروری ہوتا ہے۔کھاد میں دیگر کار آمد اشیا کے علاوہ نائٹروجن کے مرکبات بھی موجود ہوتے ہیں۔ جب پودوں کو پانی دیا جاتا ہے تو یہ مرکبات پانی میں حل ہو جاتے ہیں اور پھر پودے کی جڑیں اُن کو چوس کر تنے، شاخوں اور پتوں وغیرہ تک پہنچا دیتی ہیں۔ جانوروں کے فضلے سے جو کھاد خود بخود بن جاتی ہے اُس کی مقدار محدود ہے اور تمام ضروریات کو پورا نہیں کر سکتی ۔ لہٰذا بعض کیمیائی مرکبات مصنوعی کھاد کے طور پر استعمال کیے جاتے ہیں  جن کے ذیلی اثرات انسانی جسم پر مضر ردعمل  پیدا کرسکتے ہیں۔ البتہ نامیاتی کھاد  کی تیاری سے اس خرابی سے محفوظ رہا جاسکتا ہے جس میں قدرتی طور پر  نائٹروجن کے مرکبات حل ہوجاتے ہیں اور پودوں کو غذائیت فراہم کرتے ہیں۔ گھریلو باغبانی کے لیے  کھاد اپنے گھر میں  خودہی  تیار کریں ہمارے گھروں میں روزانہ ہی مختلف قسم کا کچرا جمع ہوجاتا ہے اس کچرے کی ایک بڑی مقدار کچن سے نکلنے والا  کچرا ہے اگر ہم اس کچرے کو ضائع کرنے کی بجائے اس سے اپنے گھر میں ہی  اپنے پودوں کے لئے کھ...

مثبت سوچ سے زندگی سدھاریں

انسانی ذہن پر سوچ کا بہت زیادہ عمل دخل ہوتا ہے ز ندگی کا ہر منظر سوچ سے ہی جنم لیتا ہے۔ سوچ سے انسانی جذبات بنتے ہیں اور اس سے عمل وجود میں آتا ہے سوچ دو طرح کی ہوتی ہے۔ مثبت سوچ اور منفی سوچ یعنی اچھی اور بری سوچ کامیابی اور ناکامی ان ہی دو سوچوں کا نتیجہ ہے۔  خیالات کا ذ ہن میں پیدا ہونا ایک قدرتی رجحان ہے مگر خیال کو سوچ میں تبدیل کرنا انسان کے اختیار میں ہے۔ انسان کے خیالات ہی اس کی شخصیت کو بنانے اور بگاڑنے کا موجب ہے مثبت خیالات مثبت سوچ کی طرف رہنمائی کرتے ہیں مثبت سوچ کامیابی کی طرف لے جانے والی وہ سڑک ہے جس پر چلنے والا اپنی منزل کو پالیتا ہے ۔ہماری تمام حرکات  ہماری سوچ کے زیراثرہوتی ہیں یعنی یہ ہماری سوچ ہی ہےجو ہم سے عوامل سرزد کراتی ہے مثبت سوچ دراصل اچھی اور صحیح سوچ ھےایک مثبت سوچ کا حامل انسان یقیناً مثبت خیالات اور تخلیقات کو ہی منظر عام پر لائے گا۔مثبت سوچ اچھے خیالات کی وجہ بنتی ھے جس کے انسانی صحت پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔زندگی میں کامیابی کا اسی فیصد انحصار  ہمارے رویے پر ہے   اور رویہ  سوچ سے جنم لیتا ہےمثبت سوچ سے مثبت ...