پانی قدرت کا بیش بہا عطیہ ہےپانی کے بغیر زندگی کا تصور بھی ممکن نہیں تندرستی اور صحت کی بقا کے لیے آکسیجن کے بعد پانی زندگی کا اہم جز ہے اب زندگی کی یہ بنیادی ضرورت بھی موسمیاتی تبدیلیوں اور آلودگی کا شکار ہوتی جارہی ہے اور یہ آلودگی صحت انسانی کے ساتھ ساتھ روئے زمین پربسنے والے تمام جانداروں حتی کہ درخت وپودوں کے لیے بھی خطرناک ہے۔
ہر سال 22مارچ کو دنیا بھر میں پانی کی اہمیت پر توجہ مرکوز رکھنے کے
لیے پانی کا عالمی دن ورلڈ واٹر ڈے منایا جاتا ہے ۔
اس دن کے منانے کا آغاز 1992 میں برازیل کے شہر ریوڈی جنیرو میں اقوام متحدہ کی ماحول اور ترقی کے عنوان سے منعقدہ کانفرنس کی سفارش پر ہوا تھا جس کے بعد 1993 سے ہر سال 22 مارچ کو یہ دن منایا جاتاہے ۔ پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہوچکا ہے جو پانی کی قلت کا شکار ہیں سرکاری اعداد وشمار کے مطابق جب پاکستان وجود میں آیا اس وقت ہر شہری کے لیے 5ہزار 600 کیوبک میٹر پانی تھا جو اب کم ہوکر 1000 کیوبک میٹر رہ گیا ہے۔ پاکستان اگرچہ پانچ دریاؤں اور ایک سمندر کی حامل سرزمین ہے لیکن اس کے باوجود یو این ڈی پی کے سروے کے مطابق2025 میں پانی کی قلت کے حوالے سے پاکستان دنیا کا سب سے خطرناک ملک ہوگا۔ اس کی وجہ یہ ہے ایک طرف پانی کی کمی اور دوسری طرف جو پانی موجود ہے اسے گندگی سے آلودہ کیا جارہا ہے ہمارے دریا ،نہریں اور سمندر گندگی سے آلودہ ہوچکے ہیں ملک کے سیویج کا پانی اور صنعتوں سے بہنے والا فضلہ دریا برد کردیا جاتا ہے نتیجہ کے طور پر کتنے ہی مہلک اور جان لیوا امراض اس آلودہ پانی کے پینے سے ہوتے ہیں ۔ کرہ ارض کے درجہ حرارت میں اضافہ اور اس کے نتیجے میں آب وہوا اور موسم میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے باعث دنیا بھیانک سیلابوں، خشک سالی، سطح سمندر میں اضافہ اور پانی کی شدید کمی جیسے سنگین مسائل کا شکارہوسکتی ہے جن کے ابتدائی مظاہر سامنے آنے شروع ہوچکے ہیں اس تناظر میں یہ بھی کہا جانے لگا ہے کہ اکیسویں صدی کی جنگیں پانی کے مسئلے پر لڑی جائیں گی ۔ ہماری خوراک کا زیادہ تر انحصار زراعت پر ہے لیکن دیہی علاقوں میں پانی کی کمی کی وجہ سے کاشتکاروں کو بے شمار مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے صحرائی علاقوں کو دیکھا جائے تو وہاں پانی کے ابھی بھی مسائل ہیں روزمرہ کی ضروریات کے لیے خواتین کو میلوں دور جانا پڑتا ہے اس طرح ان کا سارا دن صرف پانی کے حصول میں ہی برباد ہوتا ہے۔
قدرت نے ہر نعمت کو ایک خاص تناسب سے زمین پر اتارا ہے زمین پر موجود پانی کا بخارات میں تبدیل ہونا پھر بارش کی صورت میں واپس زمین پر آنا کسی حکمت سے خالی نہیں اگر بارش کا یہ سلسلہ رک جائے تو اس روئے زمین پر نہ ہی کوئی اناج پیدا ہو اور نہ ہی پینے کا صاف پانی میسر آتا رہے.
ہمارے ملک میں استعمال ہونے والا ٨٠ فی صد پینے کاپانی زیرزمین پانی ہے لیکن اس کے بےتحاشہ استعمال کی وجہ سے زیرزمین پانی کی سطح نیچے جارہی ہے. پانی کی کمی کا ایک سبب بے جا درختوں کی کٹائی اور جنگلات کا صفایا بھی ہے یہ درخت جہاں بارش لانے کا سبب ہیں وہیں آب وہوا کو صاف رکھنے اور سیلاب سے ہونے والی تباہی سے بچاؤ کا ذریعہ بھی ہیں ضرورت اس بات کی ہے کہ زیادہ سے زیادہ درخت اگائے جائیں جوپانی ہمارے پاس میسر ہے اس کی حفاظت کی جائے گھریلو طور پر پانی کا استعمال بہت احتیاط سے کیا جائے ۔حکومتی سطح پر پانی کےانتظامات کا موثر نظام بنایا جائے نہری نظام کو پختہ کیا جائے اسے ضائع ہونے اور آلودہ ہونے سے بچانے کی طرف توجہ دی جائے سمندری پانی کو میٹھا پانی بنانے کے لئے مناسب اقدامات کیے جائیں ماحول اور علاقے کی مناسبت سے شجر کاری کی مہم کو کامیاب بنایا جائے۔پانی جیسے قدرتی وسیلے کی حفاظت کے لیے ہر ایک کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا قطرے قطرے سے دریا بنتا ہے لہذا پانی کا دانشمندانہ استعمال وقت کی اہم ضرورت ہے۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں