نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

حوا کی بیٹی اللہ کی فرمانبردار مگر شوہر کی نافرمان

- میاں بیوی کے درمیان تعلق میں اعلی ظرفی اور خوش اخلاقی اسلامی تعلیمات کےاہم جز  ہیں  یہ تعلق خاندان کی بقأ  کا ضامن ہے

عورت اللہ کا سب سے خوبصورت تحفہ ہے۔ کائنات میں رنگ و نور عورت کے وجود کی وجہ سے ہے۔ اسلام میں عورت، ماں، بہن، بیوی اور بیٹی کو ہر لحاظ سے عزت و احترام دیا گیا ہے۔ عورت کی فطری حرمت، پاکیزگی اور اس کی نسائی تقدیس صرف اور صرف اسلام کی مرہون منت ہے۔ سورۃ النساء آیت نمبر 34 میں حکم الٰہی ہے کہ ” پس جو صالح عورتیں ہیں وہ اطاعت شعار ہوتی ہیں اور مردوں کے پیچھے اللہ کی حفاظت و نگرانی میں ان کے حقوق کی حفاظت کرتی ہیں۔ حدیث مبارک میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا”بہترین بیوی وہ ہے جب تم اسے دیکھو تو تمہارا جی خوش ہو جائے، جب تم اسے کسی بات کا حکم دو تو وہ تمہاری اطاعت کرے اور جب تم گھر میں نہ ہو تو وہ تمہارے پیچھے تمہارے مال کی اور اپنے نفس کی حفاظت کرے“ ۔‘‘ (مسلم) یہ حدیث اس آیت کی بہترین تشریح کرتی ہے۔

 شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ نے لکھا ہے کہ ” نیک عورت حقیقت میں وہی ہے جو اپنے شوہر کی اطاعت و فرمانبرداری کو ترجیح دے۔ اللہ اور اس کے رسول کا حق ادا کرنے کے بعد شوہر کے حق سے بڑھ کر کوئی حق نہیں رہ جاتا“۔شوہر کی اطاعت و خدمت فرض ہے۔ آخرت کی زندگی میں کامیابی کا دارومدار شوہر کی خدمت میں مضمر ہے۔ جنتی عورت ہمیشہ شوہر کی تابعدار ہوتی ہے، اس کے آرام و سکون کا خیال رکھتی ہے۔


عورت گھر کی نگہداشت کرتی ہے ،یہ اعلیٰ ترین عمل ہے۔ نبی کریم سے پوچھا گیا کہ عالی مرتبہ عورتوں کی طرف اشارہ فرمایئے۔ فرمایا قریشی عورتوں کو دیکھو۔ پوچھا گیا ان میں کیا خوبی ہے؟ فرمایا وہ شفیق مائیں ہیں، بچوں کو خوب ہی تربیت دیتی ہیں۔ 

حضرت حصین بن محصنؓ کہتے ہیں کہ مجھ سے میری پھوپھی نے بیان کیا کہ ایک دن میں نبی کریم کے پاس گئی، آپنے مجھ سے پوچھا (تم) کون ہو؟ کیا تم شوہر والی ہو؟ تمہارا خاوند ہے؟ میں نے کہا: ہاں! آپنے فرمایا تم اس کیلئے کیسی ہو؟ میں نے جواب دیا اس کی اطاعت اور خدمت میں کوئی کوتاہی نہیں کرتی، آپ نے فرمایا وہی تمہارے لیے جنت اور جہنم ہے۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: 'جو عورت پانچ وقت نماز ادا کرے، رمضان کے روزے رکھے، اپنی عصمت کی حفاظت کرے اور اپنے شوہر کی فرمانبرداری کرتے ہوئے زندگی گزارے تو اس عورت کو اختیار ہوگا کہ جس دروازے سے چاہے جنت میں داخل ہو جائے۔' (مشکوۃ: 281)

اس جدید دور میں ہمارے معاشرے میں جہاں بدعنوانی اور جرائم عروج پر ہیں وہی خواتین کے حقوق پر بھی ڈاکہ ڈالا جارہا ہے۔ پاکستان میں خواتین کے حقوق کی ضمانت کے قوانین تو موجود ہیں مگر صرف قوانین معاشرتی سوچ کو تبدیل نہیں کر سکتے۔ اب بھی بہت سی خواتین اپنے ہی گھروں میں محفوظ نہیں ہیں۔

اسلام میں خواتین کے حقوق پہلے سے موجود ہیں مگر معاشرہ  اس کی نفی کررہا ہے۔عورتوں کے خلاف ہونے والی صنفی امتیاز اور عدم مساوات  کو جواز بنا کرلادین طبقات ہمارے معاشرے کی مسلم خواتین کو گمراہ کرنے کی کوشش کررہےہیں اور مرد سے نفرت کا سبق پڑھارہے ہیں ۔ عورت اور مرد کے درمیان جنگ  ہمارے خاندانی نظام کو تباہ کرسکتی ہے اور یہ وہ گناہ ہے جس کو شیطان سب سے زیادہ پسند کرتا ہے۔عورت کے حقوق کی بات ضرور ہونی چاہیے مگر اس کا طریقہ کار غلط ہو تو صرف فساد ہی  پیدا ہوتا ہے مسائل کا حل نہیں نکلتا۔  اللہ تعالی کے حکم کو نظر انداز کرکے میاں بیوی کے درمیان حقوق کی نئی سرحدیں متعین کرنا ہمیں دائرہ اسلام سے خارج کرسکتا ہے۔

افسوس کی بات ہے کہ اکثر دیندار بیویاں  بھی اس پروپیگنڈے سے متاثر ہو کر اپنے شوہروں سے بغاوت پر آمادہ ہوجاتی ہیں۔  اور نام نہاد آزادی اور خود مختاری حاصل کرنے کے  کھوکھلے نعروں کا تعاقب کرتی ہیں۔ یوں اپنی نیکیاں ضائع کرکے محض عذاب  کی حقدار ٹہرتی ہیں۔

حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 'اگر کوئی عورت اس حالت میں دنیا سے رخصت ہو کہ اس کا شوہر اس سے راضی ہو تو وہ عورت جنت میں داخل ہوگی۔' (ترمذی١/ 219)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ: 'اگر میں نے کسی انسان کو سجدہ کرنے کا حکم دیا ہوتا تو بیوی کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔' (ابوداؤد و ترمذی)

اپنےپر ہونے والی زیادتی پر احتجاج کرنا اور آواز اٹھانا  ہر عورت کا حق ہے دائرہ اسلام عورت کے حقوق کی ضمانت دیتا ہے لیکن معاشرتی کج روی  اور بے راہ روی کے سیلاب میں بہہ کر اپنے آپ کوعذاب آخرت  میں جھونکنا انتہائی درجے کی بد نصیبی ہے۔

طبوعہ:  سلطان الکلام اپریل 2023

 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

گملوں میں آسانی سے سبزیاں اگائیں ۔

    گھر بیٹھےمدافعتی نظام کو متحرک   رکھنے والی قدرتی خوراک حاصل کریں۔ گھریلو باغبانی نہ صرف ایک   صحت مند سرگرمی ہے بلکہ ہم اپنے   گھر میں ہی آلودگی اور کیمیکل کے اثرات سے پاک سبزیوں کا لطف اٹھا سکتے ہیں۔ اگر شوق ہے تو اس مضمون کے ذریعے موسم گرما میں سبزیوں کی   گھریلو سطح پر بوائی کی معلومات حاصل کریں۔اور حقیقت میں   مدافعتی نظام کو متحرک رکھنے والی قدرتی خوراک حاصل کریں۔ موسم گرما کی سبزیاں اگانے کے لیے پندرہ فروری سے بہترین وقت شروع ہوجاتا ہے فروری سے مارچ اپریل تک سبزیوں کے بیج بوئے جاسکتے ہیں کچھ علاقوں میں اپریل کے بعد بھی بیج بوسکتے ہیں لیکن سخت گرمی اور لو میں بیجوں سے پودے نکلنا مشکل ہوتا ہے۔جن گملوں میں سبزی اگائی جائے وہ گملہ بارہ انچ سے بڑا ہو۔   گملہ جتنا بڑا ہوگا پودے کی نشوونما بھی اچھی ہوگی اور سبزی بھی وافر مقدار میں میسر آسکے گی سبزیوں کے لیے موسم گرما میں صبح کی پانچ سے چھ گھنٹے کی دھوپ لازمی ہوتی ہے۔ سبزی کے پودے کو صبح ایک بار پانی لازمی دیں تیز دھوپ اور لو سے بچاؤ کے   لیے گرین نیٹ کا استعمال بھی کرسکتے ہیں پودے کو گ...

معیاری سبزی کے لیے نامیاتی کھاد کی تیاری

زمین کی زرخیزی بڑھانے کے لیے مختلف قسم کی کھاد کا  استعمال ضروری ہوتا ہے۔کھاد میں دیگر کار آمد اشیا کے علاوہ نائٹروجن کے مرکبات بھی موجود ہوتے ہیں۔ جب پودوں کو پانی دیا جاتا ہے تو یہ مرکبات پانی میں حل ہو جاتے ہیں اور پھر پودے کی جڑیں اُن کو چوس کر تنے، شاخوں اور پتوں وغیرہ تک پہنچا دیتی ہیں۔ جانوروں کے فضلے سے جو کھاد خود بخود بن جاتی ہے اُس کی مقدار محدود ہے اور تمام ضروریات کو پورا نہیں کر سکتی ۔ لہٰذا بعض کیمیائی مرکبات مصنوعی کھاد کے طور پر استعمال کیے جاتے ہیں  جن کے ذیلی اثرات انسانی جسم پر مضر ردعمل  پیدا کرسکتے ہیں۔ البتہ نامیاتی کھاد  کی تیاری سے اس خرابی سے محفوظ رہا جاسکتا ہے جس میں قدرتی طور پر  نائٹروجن کے مرکبات حل ہوجاتے ہیں اور پودوں کو غذائیت فراہم کرتے ہیں۔ گھریلو باغبانی کے لیے  کھاد اپنے گھر میں  خودہی  تیار کریں ہمارے گھروں میں روزانہ ہی مختلف قسم کا کچرا جمع ہوجاتا ہے اس کچرے کی ایک بڑی مقدار کچن سے نکلنے والا  کچرا ہے اگر ہم اس کچرے کو ضائع کرنے کی بجائے اس سے اپنے گھر میں ہی  اپنے پودوں کے لئے کھ...

مثبت سوچ سے زندگی سدھاریں

انسانی ذہن پر سوچ کا بہت زیادہ عمل دخل ہوتا ہے ز ندگی کا ہر منظر سوچ سے ہی جنم لیتا ہے۔ سوچ سے انسانی جذبات بنتے ہیں اور اس سے عمل وجود میں آتا ہے سوچ دو طرح کی ہوتی ہے۔ مثبت سوچ اور منفی سوچ یعنی اچھی اور بری سوچ کامیابی اور ناکامی ان ہی دو سوچوں کا نتیجہ ہے۔  خیالات کا ذ ہن میں پیدا ہونا ایک قدرتی رجحان ہے مگر خیال کو سوچ میں تبدیل کرنا انسان کے اختیار میں ہے۔ انسان کے خیالات ہی اس کی شخصیت کو بنانے اور بگاڑنے کا موجب ہے مثبت خیالات مثبت سوچ کی طرف رہنمائی کرتے ہیں مثبت سوچ کامیابی کی طرف لے جانے والی وہ سڑک ہے جس پر چلنے والا اپنی منزل کو پالیتا ہے ۔ہماری تمام حرکات  ہماری سوچ کے زیراثرہوتی ہیں یعنی یہ ہماری سوچ ہی ہےجو ہم سے عوامل سرزد کراتی ہے مثبت سوچ دراصل اچھی اور صحیح سوچ ھےایک مثبت سوچ کا حامل انسان یقیناً مثبت خیالات اور تخلیقات کو ہی منظر عام پر لائے گا۔مثبت سوچ اچھے خیالات کی وجہ بنتی ھے جس کے انسانی صحت پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔زندگی میں کامیابی کا اسی فیصد انحصار  ہمارے رویے پر ہے   اور رویہ  سوچ سے جنم لیتا ہےمثبت سوچ سے مثبت ...