- میاں بیوی کے درمیان تعلق میں اعلی
ظرفی اور خوش اخلاقی اسلامی تعلیمات کےاہم جز ہیں یہ
تعلق خاندان کی بقأ کا ضامن ہے
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ نے لکھا
ہے کہ ” نیک عورت حقیقت میں وہی ہے جو اپنے شوہر کی اطاعت و فرمانبرداری کو ترجیح
دے۔ اللہ اور اس کے رسول کا حق ادا کرنے کے بعد شوہر کے حق سے بڑھ کر کوئی حق نہیں
رہ جاتا“۔شوہر کی اطاعت و خدمت فرض ہے۔ آخرت کی زندگی میں کامیابی کا دارومدار
شوہر کی خدمت میں مضمر ہے۔ جنتی عورت ہمیشہ شوہر کی تابعدار ہوتی ہے، اس کے آرام و
سکون کا خیال رکھتی ہے۔
عورت گھر کی نگہداشت کرتی ہے ،یہ اعلیٰ ترین عمل ہے۔ نبی کریم سے پوچھا گیا کہ عالی مرتبہ عورتوں کی طرف اشارہ فرمایئے۔ فرمایا قریشی عورتوں کو دیکھو۔ پوچھا گیا ان میں کیا خوبی ہے؟ فرمایا وہ شفیق مائیں ہیں، بچوں کو خوب ہی تربیت دیتی ہیں۔
حضرت حصین بن محصنؓ کہتے ہیں کہ مجھ
سے میری پھوپھی نے بیان کیا کہ ایک دن میں نبی کریم کے پاس گئی، آپنے مجھ سے پوچھا
(تم) کون ہو؟ کیا تم شوہر والی ہو؟ تمہارا خاوند ہے؟ میں نے کہا: ہاں! آپنے فرمایا
تم اس کیلئے کیسی ہو؟ میں نے جواب دیا اس کی اطاعت اور خدمت میں کوئی کوتاہی نہیں
کرتی، آپ نے فرمایا وہی تمہارے لیے جنت اور جہنم ہے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا
ارشاد ہے: 'جو عورت پانچ وقت نماز ادا کرے، رمضان کے روزے رکھے، اپنی عصمت کی
حفاظت کرے اور اپنے شوہر کی فرمانبرداری کرتے ہوئے زندگی گزارے تو اس عورت کو
اختیار ہوگا کہ جس دروازے سے چاہے جنت میں داخل ہو جائے۔' (مشکوۃ: 281)
اس جدید دور میں ہمارے معاشرے میں
جہاں بدعنوانی اور جرائم عروج پر ہیں وہی خواتین کے حقوق پر بھی ڈاکہ ڈالا جارہا
ہے۔ پاکستان میں خواتین کے حقوق کی ضمانت کے قوانین تو موجود ہیں مگر صرف قوانین
معاشرتی سوچ کو تبدیل نہیں کر سکتے۔ اب بھی بہت سی خواتین اپنے ہی گھروں میں محفوظ
نہیں ہیں۔
اسلام میں خواتین کے حقوق پہلے سے
موجود ہیں مگر معاشرہ اس کی نفی کررہا
ہے۔عورتوں کے خلاف ہونے والی صنفی امتیاز اور عدم مساوات کو جواز بنا کرلادین طبقات ہمارے معاشرے کی مسلم
خواتین کو گمراہ کرنے کی کوشش کررہےہیں اور مرد سے نفرت کا سبق پڑھارہے ہیں ۔ عورت
اور مرد کے درمیان جنگ ہمارے خاندانی نظام
کو تباہ کرسکتی ہے اور یہ وہ گناہ ہے جس کو شیطان سب سے زیادہ پسند کرتا ہے۔عورت
کے حقوق کی بات ضرور ہونی چاہیے مگر اس کا طریقہ کار غلط ہو تو صرف فساد ہی پیدا ہوتا ہے مسائل کا حل نہیں نکلتا۔ اللہ تعالی کے حکم کو نظر انداز کرکے میاں بیوی
کے درمیان حقوق کی نئی سرحدیں متعین کرنا ہمیں دائرہ اسلام سے خارج کرسکتا ہے۔
افسوس کی بات ہے کہ اکثر دیندار
بیویاں بھی اس پروپیگنڈے سے متاثر ہو کر
اپنے شوہروں سے بغاوت پر آمادہ ہوجاتی ہیں۔
اور نام نہاد آزادی اور خود مختاری حاصل کرنے کے کھوکھلے نعروں کا تعاقب کرتی ہیں۔ یوں اپنی
نیکیاں ضائع کرکے محض عذاب کی حقدار ٹہرتی
ہیں۔
حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا
روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 'اگر کوئی عورت اس
حالت میں دنیا سے رخصت ہو کہ اس کا شوہر اس سے راضی ہو تو وہ عورت جنت میں داخل
ہوگی۔' (ترمذی١/ 219)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا
ارشاد ہے کہ: 'اگر میں نے کسی انسان کو سجدہ کرنے کا حکم دیا ہوتا تو بیوی کو حکم
دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔' (ابوداؤد و ترمذی)
اپنےپر ہونے والی زیادتی پر احتجاج
کرنا اور آواز اٹھانا ہر عورت کا حق ہے
دائرہ اسلام عورت کے حقوق کی ضمانت دیتا ہے لیکن معاشرتی کج روی اور بے راہ روی کے سیلاب میں بہہ کر اپنے آپ
کوعذاب آخرت
میں
جھونکنا انتہائی درجے کی بد نصیبی ہے۔
طبوعہ: سلطان الکلام اپریل 2023
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں