نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اشاعتیں

ستمبر, 2016 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

وقت کا مصرف کیا ہے

وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا نہ ہی اس کو روکنے کا کسی کو اختیار ہے وقت کو تو جیسے  پر لگے ہوتے ہیں انتہائی تیزرفتاری سے اڑتا چلا جا رہا ہے ہمیں وقت کے ساتھ چلنے کے لیے اپنے  کاموں میں تیز رفتاری کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے اپنے کاموں میں ہر عقلمند شخص مصروف ہے ان کے پاس فرصت کے چند لمحات نہیں لیکن دوسری طرف کچھ نادان  لوگ بھی ہیں جن کے پاس کرنے کو کچھ نہیں وہ ہمیشہ فارغ ہی رہتے ہیں کچھ ایسے بھی لوگ ہیں جو کام تو کرتے ہیں لیکن بچے ہوئے وقت کو ضائع کرتے ہیں۔ دنیا کا کوئی نظام فکر ایسا نہیں ہے جس میں وقت کو انسان کی سب سے بڑی دولت قرار دے کر اس کی اہمیت پر زور نہ دیا گیا ہو  انسان کی زندگی کا ایک ایک لمحہ قیمتی ہے اور جو قومیں وقت کی قدر جان کر اسے استعمال کرتی ہیں وہی دنیا میں ترقی کی منزلیں طے کرتی ہیں ۔ اپنے وقت کو کارآمد ہم خود بنا سکتے ہیں اس کے لیے ہمیں وقت کی اہمیت کا اندازہ  لگانا ہوگا کیوں کہ جب انسان کسی چیز کی قدرو قیمت کو جان لیتا ہے تو اس چیز  کا ہاتھ سے نکل جانا تکلیف دہ ہوتا ہے کہ عام طور سے لوگ اچھی نوکری کے انتظار میں کئی کئی سال ڈگر...

قربانی کا مقصد تزکیہ نفس ہے؟

قدرت نے انسان کے اندر برائی و بھلائی دونوں طرح کے میلانات ازل سے ودیعت کررکھے ہیں ان دونوں میلانات کے درمیان تضاد وتصادم کی کیفیت کی وجہ سے انسان اندرونی انتشار کا شکار رہتا ہے  اور  زندگی میں بے سکونی کی کیفیت رہتی ہے  تزکیہ نفس دراصل اس کشمکش سے نجات کا ذریعہ ہے۔ تزکیہ کے لفظی معنی پاک صاف کرنا ہیں  لفظ تزکیہ زکوٰۃ  سے ہی نکلا ہے تزکیہ نفس سے مراد نفس انسانی میں موجود برائی کے فطری غلبہ کو دور کرنا ہے یا بری خواہشات پر غلبہ پالینے کا عمل تزکیہ نفس کہلاتا ہے ۔ خالق کائنات  کی خوشنودی کا راستہ اس کی مخلوق کی حقوق کی ادائیگی سے ہو کر جا تا ہے حقوق العباد کے بغیر حقوق اللہ بے سود ہیں عید الاضحیٰ کے موقع پر اللہ کے حکم سے جو قربانی کی جاتی ہے اس میں حضرت ابراہیمؑ کے جذبہ قربانی  کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے اور آپس میں محبت ،برداشت،ایثار و قربانی کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے کامیابی کے لیے قربانی ضروری ہے لیکن جانور کی قربانی سے پہلے اپنی خواہشات  کی قربانی اور تزکیہ نفس  ضروری ہے۔آج ہم نے جانوروں کی گردنوں پر چھریاں چلانے...

قربانی زندگی کو آسان بناتی ہے

عظیم کامیابیاں ہمیشہ عظیم قربانیوں کا نتیجہ ہواکرتی ہیں خود غرضی کا نتیجہ کبھی بھی کامیابی کی صورت میں نہیں نکل سکتا۔ کامیابی انتہائی آ سان ہوجاتی ہے جب ہم یہ جان لیں کہ اس کے لیے کیا قربانی دینی ہے اور ہم اس قربانی کو دینے کے لیے تیار ہوجائیں۔ زندگی میں بڑی  کامیابیاں چھوٹی چھوٹی قربانیوں کی مرہون منت ہوتی ہیں اگر ہم وقت پر اس کا ادراک کر پائیں کبھی نیند کی قربانی، کبھی عزت نفس کی قربانی،  اور کبھی غصہ خوف انا اور خود داری کی قربانی، کبھی مال ومتاع اور رشتے ناطوں کی قربانی۔ ہمارے دین نے ہمیں قربانی کے اس جزبے سے روشناس کرایا پھر ہر سال عید قربان کے حوالے سے اسے ہمارے ذہنوں میں تازہ رکھنے کا اہتمام بھی کیا۔ قربانی کا لفظ قرب سے لیا گیا ہے قرب کے معنی قریب کے ہیں چونکہ قربانی کا عمل بندے کو رب سے قریب کرتا ہے اس لئے اسے قربانی کہا جا تا ہے ۔ اللہ کو راضی کرنے اور اس کی توجہ اور قرب حاصل کرنے کے لئے قربانی کا رواج حضرت آدم ؑ سے لے کر حضرت محمدؐ تک جاری رہا ۔سب سے قدیم قربانی آدم کے بیٹوں ہابیل اور قابیل کی تھی اس کے بعد تمام امتوں ،قبائل اور نسلوں میں اس کا وجود کسی...

دعا یقین کا احساس ہے

اللہ تعالی نے دنیا میں انسان کو بھیجا تو اس کے سامنے دکھ سکھ، امیری غریبی ،سکون و بے چینی ، خوشی و غم ہر طرح کے  حالات اس کے سامنے رکھے اور انسان کو اختیار دیا کہ وہ جو چاہے راستے اپنے لئے منتخب کرلے لیکن یہ بھی بتادیا کہ ان سب کی منزل یا نتیجہ مختلف ہوگابعض اوقات غلط راہ کے انتخاب سے انسان پریشانی کا شکار ہو جاتا ہے دیکھا جائے تو انسان کی فطرت میں ہے کہ وہ مشکلات سے دور بھاگتا ہے ان کا سامنا نہیں کرنا چاہتا ہے یہ بات بھی ذہن میں ہونا چاہئے کہ دنیا میں کوئی انسان ایسا نہیں جس کو کبھی کوئی غم یا پریشانی نہ ہوئی ہو جہاں دن ہے وہاں رات بھی ہے جہاں زندگی ہے وہاں موت بھی ہے کوئی نہ کوئی پریشانی یا دکھ بلا واسطہ یا بلواسطہ انسان کے ساتھ ضرور ہوتا ہے اور یہ ہی زندگی کی حقیقت بھی ہے انسان اپنی پریشانیوں سے بہت جلدی گھبرا جا تا ہے اور اللہ سے شکوہ کرتا ہے کہ اس نے کبھی کسی کو دکھ نہیں دیا کوئی غلط کام نہیں کیا تو پریشانی کا یہ طوق اس کے گلے میں کیوں پڑا ہے اسطرح وہ اپنے آپ کو بدنصیب سمجھ کر اللہ کا نا شکرا بندہ بن جاتا ہے ایسےوقت میں اسے کسی ہمدرد یا سچے دوست کی تلاش ہوتی ہے جو اس کے دکھ ...

دعا یقین کا احساس ہے

اللہ تعالی نے دنیا میں انسان کو بھیجا تو اس کے سامنے دکھ سکھ، امیری غریبی ،سکون و بے چینی ، خوشی و غم ہر طرح کے  حالات اس کے سامنے رکھے اور انسان کو اختیار دیا کہ وہ جو چاہے راستے اپنے لئے منتخب کرلے لیکن یہ بھی بتادیا کہ ان سب کی منزل یا نتیجہ مختلف ہوگابعض اوقات غلط راہ کے انتخاب سے انسان پریشانی کا شکار ہو جاتا ہے دیکھا جائے تو انسان کی فطرت میں ہے کہ وہ مشکلات سے دور بھاگتا ہے ان کا سامنا نہیں کرنا چاہتا ہے یہ بات بھی ذہن میں ہونا چاہئے کہ دنیا میں کوئی انسان ایسا نہیں جس کو کبھی کوئی غم یا پریشانی نہ ہوئی ہو جہاں دن ہے وہاں رات بھی ہے جہاں زندگی ہے وہاں موت بھی ہے کوئی نہ کوئی پریشانی یا دکھ بلا واسطہ یا بلواسطہ انسان کے ساتھ ضرور ہوتا ہے اور یہ ہی زندگی کی حقیقت بھی ہے انسان اپنی پریشانیوں سے بہت جلدی گھبرا جا تا ہے اور اللہ سے شکوہ کرتا ہے کہ اس نے کبھی کسی کو دکھ نہیں دیا کوئی غلط کام نہیں کیا تو پریشانی کا یہ طوق اس کے گلے میں کیوں پڑا ہے اسطرح وہ اپنے آپ کو بدنصیب سمجھ کر اللہ کا نا شکرا بندہ بن جاتا ہے ایسےوقت میں اسے کسی ہمدرد یا سچے دوست کی تلاش ہوتی ہے جو اس کے دکھ ...