نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

دعا یقین کا احساس ہے

اللہ تعالی نے دنیا میں انسان کو بھیجا تو اس کے سامنے دکھ سکھ، امیری غریبی ،سکون و بے چینی ، خوشی و غم ہر طرح کے  حالات اس کے سامنے رکھے اور انسان کو اختیار دیا کہ وہ جو چاہے راستے اپنے لئے منتخب کرلے لیکن یہ بھی بتادیا کہ ان سب کی منزل یا نتیجہ مختلف ہوگابعض اوقات غلط راہ کے انتخاب سے انسان پریشانی کا شکار ہو جاتا ہے دیکھا جائے تو انسان کی فطرت میں ہے کہ وہ مشکلات سے دور بھاگتا ہے ان کا سامنا نہیں کرنا چاہتا ہے یہ بات بھی ذہن میں ہونا چاہئے کہ دنیا میں کوئی انسان ایسا نہیں جس کو کبھی کوئی غم یا پریشانی نہ ہوئی ہو جہاں دن ہے وہاں رات بھی ہے جہاں زندگی ہے وہاں موت بھی ہے کوئی نہ کوئی پریشانی یا دکھ بلا واسطہ یا بلواسطہ انسان کے ساتھ ضرور ہوتا ہے اور یہ ہی زندگی کی حقیقت بھی ہے انسان اپنی پریشانیوں سے بہت جلدی گھبرا جا تا ہے اور اللہ سے شکوہ کرتا ہے کہ اس نے کبھی کسی کو دکھ نہیں دیا کوئی غلط کام نہیں کیا تو پریشانی کا یہ طوق اس کے گلے میں کیوں پڑا ہے اسطرح وہ اپنے آپ کو بدنصیب سمجھ کر اللہ کا نا شکرا بندہ بن جاتا ہے ایسےوقت میں اسے کسی ہمدرد یا سچے دوست کی تلاش ہوتی ہے جو اس کے دکھ درد کو سن سکے انسان نے ہمیشہ ایک بڑی طاقت کو مانا ہے جس نے اس ساری کائنات کو پیدا کیا ہے دنیا کے تمام مذاہب نے اسکو مانا ہے اور مختلف ناموں سے جانا ہے ہم مسلمانوں کا ایمان صرف ایک واحد پروردگار پر ہے جسے ہمیں  اللہ کے نام سے پکارتے ہیں انسان اپنی پریشانی یا خواہش کے حصول کے لئے اللہ کی طرف رجوع کرتا ہے دل مضطرب سے الفاظ پکار بن کر نکلتے ہیں یہ ہی پکار دعا کہلاتی ہے ۔دعا انسانوں کے لیے ان چیزوں کو ممکن بنا تی ہے جو عام حالات میں ناممکن دکھائی دیتے ہیں۔ انسان اگر گناہوں میں مشغول رہا ہو تب بھی توبہ کا راستہ ہمیشہ کھلا رہتا ہے۔

انسان دعا کے ذریعے اللہ سے اپنے یا دوسروں کے لئے نیک تمنا اور بھلائی کی خواہش کا اظہار کرتا ہے انسان اپنی زندگی میں دعا کو ترک کرکے اپنے مقصد کو نہیں پا سکتا ہے کیوں کہ ہر مسئلے کا حل انسان کے پاس نہیں ہے اس کے حل کے لئے دعا ہی واحد طاقت ہے دعا آنے والی مصیبت کو روکتی ہے اور جو مصیبت آچکی ہواسکو ہلکا کرتی ہے دعا اگر مصیبت سے کمزور ہے تو مصیبت حاوی ہوجاتی ہے اور انسان کہتا ہے میری دعا قبول نہیں ہوئی اس لئے کہا گیا ہے کہ نہایت عاجزی کے ساتھ گڑگڑاکراپنے رب سے دعا مانگی جائے اگر کسی وجہ سے دعا قبول نہ ہو تو ہمارا رب ہمیں اس چیز کا بدل عطا کردیتا ہے بعض اوقات دعا اور مصیبت ایک جیسی طاقت کی ہوں تو دعا قیامت تک اس مصیبت سے لڑتی رہے گی اگر انسان مایوس ہوکر دعا کرنا چھوڑ دے تو پھر مصیبت کو اپنے اوپر حاوی کرلیتا ہے ہر شخص کی دعا قبول ہوتی ہے بشرطیکہ وہ جلد بازی نہ کرے اور مایوس ہو کر نا شکرا پن نہ کرے دعا کبھی رائیگاں نہیں جاتی ہے اگر قبول نہ ہو تو اس کا بدل حاصل ہوجاتا ہے قبولیت دعا کا اصل راز دعا مانگنے والے کا طریقہ ہے کہ وہ کیسے اور کتنی شدت سے دعا مانگتا ہے۔

جو شخص دعا  میں یقین نہیں کرتا وہ ہمیشہ اندھیرے میںرہتا  ہے اس کے پاس اپنے مقصد کے حصول لیے کوئی اور ذریعہ باقی نہیں بچتا۔ دعا پر یقین رکھنے والے لوگ  اندھیروں کے بیچ سے اللہ کے نور کو شناخت کر سکتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ   خشوع کے ساتھ اللہ تعالی سے دعا کرنی چاہیے وہی مصیبتوں کا نجات دہندہ ہے اور وہی دل کی مرادیں پوری کرسکتا ہے۔ دعا ہی درحقیقت وہ چابی ہے جو معجزات دکھا سکتی ہے اور انسانوں کے لیے روحانیت کا دروازہ کھول دیتی ہے۔ جب ہم اپنی تمام تر طاقت اور  ذہانت  کے باوجود اپنے مقاصد کے حصول میں ناکام رہتے ہیں تو دعا ہی  ہمیں اس  حقیقی روشنی سے روشناس کراتی ہے جو  ہمیں نہ صرف منزل کا راستہ دکھاتی ہے بلکہ کامیابی سے بھی ہمکنار کراتی ہے۔

جب ہم تکلیف یا خواہش میں دعا مانگتے ہیں تو اس وقت اپنی خواہش پوری ہونے کی آرزو ہوتی ہے لیکن دعا مانگنے کے بعد انسان کے دل کا بوجھ بھی ہلکا ہو جاتا ہے اسے ایک نئی طاقت ملتی ہے جس سے دکھ درد کی تلخی کم ہوجا تی ہے انسان کو اپنی دکھ درد سے پریشان ہونےکی بجائے اس دکھ درد کوسہنے کی طاقت کے لئے دعا مانگنا چاہیئے ۔ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

گملوں میں آسانی سے سبزیاں اگائیں ۔

    گھر بیٹھےمدافعتی نظام کو متحرک   رکھنے والی قدرتی خوراک حاصل کریں۔ گھریلو باغبانی نہ صرف ایک   صحت مند سرگرمی ہے بلکہ ہم اپنے   گھر میں ہی آلودگی اور کیمیکل کے اثرات سے پاک سبزیوں کا لطف اٹھا سکتے ہیں۔ اگر شوق ہے تو اس مضمون کے ذریعے موسم گرما میں سبزیوں کی   گھریلو سطح پر بوائی کی معلومات حاصل کریں۔اور حقیقت میں   مدافعتی نظام کو متحرک رکھنے والی قدرتی خوراک حاصل کریں۔ موسم گرما کی سبزیاں اگانے کے لیے پندرہ فروری سے بہترین وقت شروع ہوجاتا ہے فروری سے مارچ اپریل تک سبزیوں کے بیج بوئے جاسکتے ہیں کچھ علاقوں میں اپریل کے بعد بھی بیج بوسکتے ہیں لیکن سخت گرمی اور لو میں بیجوں سے پودے نکلنا مشکل ہوتا ہے۔جن گملوں میں سبزی اگائی جائے وہ گملہ بارہ انچ سے بڑا ہو۔   گملہ جتنا بڑا ہوگا پودے کی نشوونما بھی اچھی ہوگی اور سبزی بھی وافر مقدار میں میسر آسکے گی سبزیوں کے لیے موسم گرما میں صبح کی پانچ سے چھ گھنٹے کی دھوپ لازمی ہوتی ہے۔ سبزی کے پودے کو صبح ایک بار پانی لازمی دیں تیز دھوپ اور لو سے بچاؤ کے   لیے گرین نیٹ کا استعمال بھی کرسکتے ہیں پودے کو گ...

معیاری سبزی کے لیے نامیاتی کھاد کی تیاری

زمین کی زرخیزی بڑھانے کے لیے مختلف قسم کی کھاد کا  استعمال ضروری ہوتا ہے۔کھاد میں دیگر کار آمد اشیا کے علاوہ نائٹروجن کے مرکبات بھی موجود ہوتے ہیں۔ جب پودوں کو پانی دیا جاتا ہے تو یہ مرکبات پانی میں حل ہو جاتے ہیں اور پھر پودے کی جڑیں اُن کو چوس کر تنے، شاخوں اور پتوں وغیرہ تک پہنچا دیتی ہیں۔ جانوروں کے فضلے سے جو کھاد خود بخود بن جاتی ہے اُس کی مقدار محدود ہے اور تمام ضروریات کو پورا نہیں کر سکتی ۔ لہٰذا بعض کیمیائی مرکبات مصنوعی کھاد کے طور پر استعمال کیے جاتے ہیں  جن کے ذیلی اثرات انسانی جسم پر مضر ردعمل  پیدا کرسکتے ہیں۔ البتہ نامیاتی کھاد  کی تیاری سے اس خرابی سے محفوظ رہا جاسکتا ہے جس میں قدرتی طور پر  نائٹروجن کے مرکبات حل ہوجاتے ہیں اور پودوں کو غذائیت فراہم کرتے ہیں۔ گھریلو باغبانی کے لیے  کھاد اپنے گھر میں  خودہی  تیار کریں ہمارے گھروں میں روزانہ ہی مختلف قسم کا کچرا جمع ہوجاتا ہے اس کچرے کی ایک بڑی مقدار کچن سے نکلنے والا  کچرا ہے اگر ہم اس کچرے کو ضائع کرنے کی بجائے اس سے اپنے گھر میں ہی  اپنے پودوں کے لئے کھ...

مثبت سوچ سے زندگی سدھاریں

انسانی ذہن پر سوچ کا بہت زیادہ عمل دخل ہوتا ہے ز ندگی کا ہر منظر سوچ سے ہی جنم لیتا ہے۔ سوچ سے انسانی جذبات بنتے ہیں اور اس سے عمل وجود میں آتا ہے سوچ دو طرح کی ہوتی ہے۔ مثبت سوچ اور منفی سوچ یعنی اچھی اور بری سوچ کامیابی اور ناکامی ان ہی دو سوچوں کا نتیجہ ہے۔  خیالات کا ذ ہن میں پیدا ہونا ایک قدرتی رجحان ہے مگر خیال کو سوچ میں تبدیل کرنا انسان کے اختیار میں ہے۔ انسان کے خیالات ہی اس کی شخصیت کو بنانے اور بگاڑنے کا موجب ہے مثبت خیالات مثبت سوچ کی طرف رہنمائی کرتے ہیں مثبت سوچ کامیابی کی طرف لے جانے والی وہ سڑک ہے جس پر چلنے والا اپنی منزل کو پالیتا ہے ۔ہماری تمام حرکات  ہماری سوچ کے زیراثرہوتی ہیں یعنی یہ ہماری سوچ ہی ہےجو ہم سے عوامل سرزد کراتی ہے مثبت سوچ دراصل اچھی اور صحیح سوچ ھےایک مثبت سوچ کا حامل انسان یقیناً مثبت خیالات اور تخلیقات کو ہی منظر عام پر لائے گا۔مثبت سوچ اچھے خیالات کی وجہ بنتی ھے جس کے انسانی صحت پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔زندگی میں کامیابی کا اسی فیصد انحصار  ہمارے رویے پر ہے   اور رویہ  سوچ سے جنم لیتا ہےمثبت سوچ سے مثبت ...