نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

قربانی کا مقصد تزکیہ نفس ہے؟

قدرت نے انسان کے اندر برائی و بھلائی دونوں طرح کے میلانات ازل سے ودیعت کررکھے ہیں ان دونوں میلانات کے درمیان تضاد وتصادم کی کیفیت کی وجہ سے انسان اندرونی انتشار کا شکار رہتا ہے  اور  زندگی میں بے سکونی کی کیفیت رہتی ہے  تزکیہ نفس دراصل اس کشمکش سے نجات کا ذریعہ ہے۔

تزکیہ کے لفظی معنی پاک صاف کرنا ہیں  لفظ تزکیہ زکوٰۃ  سے ہی نکلا ہے تزکیہ نفس سے مراد نفس انسانی میں موجود برائی کے فطری غلبہ کو دور کرنا ہے یا بری خواہشات پر غلبہ پالینے کا عمل تزکیہ نفس کہلاتا ہے ۔



خالق کائنات  کی خوشنودی کا راستہ اس کی مخلوق کی حقوق کی ادائیگی سے ہو کر جا تا ہے حقوق العباد کے بغیر حقوق اللہ بے سود ہیں عید الاضحیٰ کے موقع پر اللہ کے حکم سے جو قربانی کی جاتی ہے اس میں حضرت ابراہیمؑ کے جذبہ قربانی  کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے اور آپس میں محبت ،برداشت،ایثار و قربانی کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے کامیابی کے لیے قربانی ضروری ہے لیکن جانور کی قربانی سے پہلے اپنی خواہشات  کی قربانی اور تزکیہ نفس  ضروری ہے۔آج ہم نے جانوروں کی گردنوں پر چھریاں چلانے کی رسم تو اپنالی لیکن سنت ابراہیمی کو  فراموش کرتےہوئے اپنے نفس کو بے لگام چھوڑ چکے ہیں یاد رکھنا چائیےکہ ہم جو بھی عبادت کرتے ہیں اس کا مقصد اللہ کی خوشنودی اور اسکی رضا ہے اگر قربانی کرتے ہوئے یہ جذبہ موجود نہیں تو صرف قربانی کی رسم پوری ہوگی اور کوئی فائدہ نہیں ہے۔عید الاضحیٰ کا دن یہ سوچنے کی تحریک دیتا ہےکہ اللہ کی خوشنودی کی خاطر بہت سی خواہشات کی قربانی دینا ہے یعنی ہمیں صرف مال  و رقم  ہی خرچ نہیں کرنی  ہے  بلکہ قربانی کی اصل روح بھی بیدار کرنی ہے جو کہ سال کے بقیہ دنوں تک ہماری ذات کا حصہ بنی رہے اور ہم سال بھر چھوٹی چھوٹی  قربانیاں دیتے رہیں تا کہ  عید الاضحیٰ پر صحیح روح کے ساتھ بڑی قربانی کر سکیں۔

آج کے دور پر نظر ڈالی جائے تونمودو نمائش اور ریا کاری کا رحجان  عبادت اور قربانی جیسے دینی عمل  کی ادائیگی میں بھی ہمارے معاشرے میں نظر آتا ہے ہر شخص اپنی مالی حیثیت کے زعم میں مبتلا ہے سیلفییاں بنا کر قربانی کےجانوروں کی نمائش کی جا تی ہے  یہ نہیں سوچا جاتا ہے کہ بے جا نمودو نمائش کا جذبہ حقیقی اجر کو ضائع کر دیتا ہے ۔جہاں قربانی کے جانور کے لئے ضروری ہے کہ وہ عیب سے پاک ہو وہاں قربانی کرنے والے کے لئے بھی کوئی جانچ اور معیار ہونا چاہیئے قربانی کرنے والے کو خود اپنے ایمان کا جائزہ لینا چاہیئے کہیں وہ اللہ کا نافرمان بندہ تو نہیں ؟اسکا ایمان تو کمزور نہیں ؟قربانی سے پہلے اس نےاپنی نفسانی خواہشات پر چھری پھیری یا نہیں؟

آج کے دور میں دیکھا جائے تو قربانی کرنے والا ہزاروں لاکھوں روپوں سے خریدے گئے معصوم جانوروں کے گلے پر چھری چلاکر ڈھیر سارے گوشت کے نت نئے پکوان سے لطف اندوز ہوکر صرف اپنوں کو گوشت تقسیم کرکے باقی سارا سال کے لئے فریز کر کے  جیسے اپنے فرض سے سبکدوش ہوجاتا ہے  ۔قربانی کے گوشت کی صحیح تقسیم نہیں کی جاتی  غربأ  اور مساکین کو یاد نہیں رکھا جاتااللہ کی راہ میں قربانی کرکے جانور کے پایوں، چانپوں پر خود ہی قربان ہوجاتے ہیں کیا یہ ہی قربانی ہے؟ سارا سال لوگوں کا حق کھا کر اپنے پیٹ کی آگ بجھانے والوں کی عید الاضحیٰ صرف مظلوم و بےزبان جانوروں  کے گلے پر چھری چلاکر معاشرے میں اپنی دولت کی نمودونمائش تک محدود ہوکر رہ گئی ہے قربانی کا مقصد صرف ایک حلال جانور کو ذبح کرنا نہیں ہے بلکہ حضرت ابراہیمؑ کی طرح اپنی عزیز ترین شے کو خدا کی راہ میں قربان کرنے کے لئے تیار کرنا ہےاللہ تعالیٰ فرماتا ہےخدا تک ان (جانوروں) کاگوشت پہنچتا ہے اور نہ خون بلکہ اس تک تمہاری پرہیزگاری پہنچتی ہے۔( سورہ الحج)

عید الاضحیٰ  پر قربانی جیسے فریضہ کو بھی متنازعہ بناکر دلائل ڈھونڈے جا رہے ہیں اور اس کو محض پیسے کا ضیاع خیال کیا جارہا ہے اگر دنیاوی اور مادی دلائل پر آ یا جائے تو نمازیں بھی وقت کا ضیاع لگنے لگیں گی یہ لوگ یہ کیوں نہیں سوچتے کہ جتنے جانور سال میں ایک بار اللہ کی خوشنودی کے لئے قربان ہوتے ہیں اس سے کہیں زیادہ کاروباری مقاصد کے لئے ہر ماہ ذبح ہوتے ہیں ۔


ہمیں اپنے مذہبی تہواروں کو ان کے عین تقاضے کے مطابق منانے کی کوشش کرنا چاہیئے اور اپنے دین کی نمائندگی اس انداز سے کرنا چاہیئے کہ دوسرے مذاہب کے ماننے والے ان تہواروں کو محض تفریح کا ذریعہ نہ سمجھیں۔سوچیں کہیں آپ کی قربانی جذبہ ایثار،اور خلوص سے تو خالی نہیں اور اگر ایسا ہے تو اپنے اعمال کو درست کرنے کی کوشش کریں  اور جانوروں کی قربانی کے ساتھ اپنی جھو ٹی انا ، خواہشات نفس کی بھی قربانی کردیں۔ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

گملوں میں آسانی سے سبزیاں اگائیں ۔

    گھر بیٹھےمدافعتی نظام کو متحرک   رکھنے والی قدرتی خوراک حاصل کریں۔ گھریلو باغبانی نہ صرف ایک   صحت مند سرگرمی ہے بلکہ ہم اپنے   گھر میں ہی آلودگی اور کیمیکل کے اثرات سے پاک سبزیوں کا لطف اٹھا سکتے ہیں۔ اگر شوق ہے تو اس مضمون کے ذریعے موسم گرما میں سبزیوں کی   گھریلو سطح پر بوائی کی معلومات حاصل کریں۔اور حقیقت میں   مدافعتی نظام کو متحرک رکھنے والی قدرتی خوراک حاصل کریں۔ موسم گرما کی سبزیاں اگانے کے لیے پندرہ فروری سے بہترین وقت شروع ہوجاتا ہے فروری سے مارچ اپریل تک سبزیوں کے بیج بوئے جاسکتے ہیں کچھ علاقوں میں اپریل کے بعد بھی بیج بوسکتے ہیں لیکن سخت گرمی اور لو میں بیجوں سے پودے نکلنا مشکل ہوتا ہے۔جن گملوں میں سبزی اگائی جائے وہ گملہ بارہ انچ سے بڑا ہو۔   گملہ جتنا بڑا ہوگا پودے کی نشوونما بھی اچھی ہوگی اور سبزی بھی وافر مقدار میں میسر آسکے گی سبزیوں کے لیے موسم گرما میں صبح کی پانچ سے چھ گھنٹے کی دھوپ لازمی ہوتی ہے۔ سبزی کے پودے کو صبح ایک بار پانی لازمی دیں تیز دھوپ اور لو سے بچاؤ کے   لیے گرین نیٹ کا استعمال بھی کرسکتے ہیں پودے کو گ...

معیاری سبزی کے لیے نامیاتی کھاد کی تیاری

زمین کی زرخیزی بڑھانے کے لیے مختلف قسم کی کھاد کا  استعمال ضروری ہوتا ہے۔کھاد میں دیگر کار آمد اشیا کے علاوہ نائٹروجن کے مرکبات بھی موجود ہوتے ہیں۔ جب پودوں کو پانی دیا جاتا ہے تو یہ مرکبات پانی میں حل ہو جاتے ہیں اور پھر پودے کی جڑیں اُن کو چوس کر تنے، شاخوں اور پتوں وغیرہ تک پہنچا دیتی ہیں۔ جانوروں کے فضلے سے جو کھاد خود بخود بن جاتی ہے اُس کی مقدار محدود ہے اور تمام ضروریات کو پورا نہیں کر سکتی ۔ لہٰذا بعض کیمیائی مرکبات مصنوعی کھاد کے طور پر استعمال کیے جاتے ہیں  جن کے ذیلی اثرات انسانی جسم پر مضر ردعمل  پیدا کرسکتے ہیں۔ البتہ نامیاتی کھاد  کی تیاری سے اس خرابی سے محفوظ رہا جاسکتا ہے جس میں قدرتی طور پر  نائٹروجن کے مرکبات حل ہوجاتے ہیں اور پودوں کو غذائیت فراہم کرتے ہیں۔ گھریلو باغبانی کے لیے  کھاد اپنے گھر میں  خودہی  تیار کریں ہمارے گھروں میں روزانہ ہی مختلف قسم کا کچرا جمع ہوجاتا ہے اس کچرے کی ایک بڑی مقدار کچن سے نکلنے والا  کچرا ہے اگر ہم اس کچرے کو ضائع کرنے کی بجائے اس سے اپنے گھر میں ہی  اپنے پودوں کے لئے کھ...

مثبت سوچ سے زندگی سدھاریں

انسانی ذہن پر سوچ کا بہت زیادہ عمل دخل ہوتا ہے ز ندگی کا ہر منظر سوچ سے ہی جنم لیتا ہے۔ سوچ سے انسانی جذبات بنتے ہیں اور اس سے عمل وجود میں آتا ہے سوچ دو طرح کی ہوتی ہے۔ مثبت سوچ اور منفی سوچ یعنی اچھی اور بری سوچ کامیابی اور ناکامی ان ہی دو سوچوں کا نتیجہ ہے۔  خیالات کا ذ ہن میں پیدا ہونا ایک قدرتی رجحان ہے مگر خیال کو سوچ میں تبدیل کرنا انسان کے اختیار میں ہے۔ انسان کے خیالات ہی اس کی شخصیت کو بنانے اور بگاڑنے کا موجب ہے مثبت خیالات مثبت سوچ کی طرف رہنمائی کرتے ہیں مثبت سوچ کامیابی کی طرف لے جانے والی وہ سڑک ہے جس پر چلنے والا اپنی منزل کو پالیتا ہے ۔ہماری تمام حرکات  ہماری سوچ کے زیراثرہوتی ہیں یعنی یہ ہماری سوچ ہی ہےجو ہم سے عوامل سرزد کراتی ہے مثبت سوچ دراصل اچھی اور صحیح سوچ ھےایک مثبت سوچ کا حامل انسان یقیناً مثبت خیالات اور تخلیقات کو ہی منظر عام پر لائے گا۔مثبت سوچ اچھے خیالات کی وجہ بنتی ھے جس کے انسانی صحت پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔زندگی میں کامیابی کا اسی فیصد انحصار  ہمارے رویے پر ہے   اور رویہ  سوچ سے جنم لیتا ہےمثبت سوچ سے مثبت ...