عظیم کامیابیاں ہمیشہ عظیم قربانیوں کا نتیجہ ہواکرتی
ہیں خود غرضی کا نتیجہ کبھی بھی کامیابی کی صورت میں نہیں نکل سکتا۔ کامیابی
انتہائی آ سان ہوجاتی ہے جب ہم یہ جان لیں کہ اس کے لیے کیا قربانی دینی ہے اور ہم
اس قربانی کو دینے کے لیے تیار ہوجائیں۔ زندگی میں بڑی کامیابیاں چھوٹی چھوٹی قربانیوں کی مرہون منت
ہوتی ہیں اگر ہم وقت پر اس کا ادراک کر پائیں کبھی نیند کی قربانی، کبھی عزت نفس
کی قربانی، اور کبھی غصہ خوف انا اور خود
داری کی قربانی، کبھی مال ومتاع اور رشتے ناطوں کی قربانی۔ ہمارے دین نے ہمیں
قربانی کے اس جزبے سے روشناس کرایا پھر ہر سال عید قربان کے حوالے سے اسے ہمارے
ذہنوں میں تازہ رکھنے کا اہتمام بھی کیا۔
قربانی کا لفظ قرب سے لیا گیا ہے قرب کے معنی قریب کے
ہیں چونکہ قربانی کا عمل بندے کو رب سے قریب کرتا ہے اس لئے اسے قربانی کہا جا تا
ہے ۔
اللہ کو راضی کرنے اور اس کی توجہ اور قرب حاصل کرنے کے
لئے قربانی کا رواج حضرت آدم ؑ سے لے کر حضرت محمدؐ تک جاری رہا ۔سب سے قدیم
قربانی آدم کے بیٹوں ہابیل اور قابیل کی تھی اس کے بعد تمام امتوں ،قبائل اور
نسلوں میں اس کا وجود کسی نہ کسی طور پر نظر آتا ہے ۔ایک مسلمان جب اللہ کی بارگاہ
میں قربانی پیش کرتا ہے تو اپنا پسندیدہ جانور قربان کرتے وقت دراصل علامتی طور
پراللہ کی رضا اور خوشنودی کے سامنے اپنے
آپ کو ، اپنی خواہشات، احساسات و جذبات، مال واولاد کو اللہ کی راہ میں قربان کرتا
ہے ۔اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انسان کی زندگی میں صبر وشکر،سکون و اطمینان آجا
تا ہے۔
ذبح کا حکم خواب کے ذریعے اس لئے دیا گیا تا کہ رہتی
دنیا تک لوگوں کے لئے سبق آموز بات بن جائے حضرت ابراہیمؑ کو خواب میں اللہ کی جانب سے صرف ایک اشارہ ملا
اور وہ اس اشارے پر بیٹے کو قربان کرنے پر تیار ہو گئے اسی لیے عید قربان ایسی
قربا نیوں کی یاد دلاتی ہے جو انسانی جذبات اور احساسات کی قربانیاں کہلاتی ہیں
قربانی کے موقع پر نیک نیتی شرط ہے جانور
خریدتے وقت ، اس کی خدمت کرتے وقت صرف اللہ کی رضا اور خوشنودی شامل حال ہونا چاہئے
یہ بات بالکل درست نہیں کہ کسی بھی طرح جانور کی نمود ونمائش کی جائے یا اس کی
قیمت میں ایک دوسرے سے سبقت لے جا نے کی کوشش کی جا ئے اس طرح کی باتیں قربانی کی
اصل روح کو برباد کر دیتی ہیں ۔اللہ تعالیٰ کے پاس قربانی کرنے سے نہ تو جانور کا
گوشت پہنچتا ہے نہ خون اور نہ ہی جانور کی کھال بلکہ اللہ کے پاس انسان کا
تقویٰ اور نیکی پہنچتی ہے ۔
قربانی کرنے سے قربانی کرنے والے کا ہی فائدہ ہے جب
قربانی کے گوشت کے تین حصے کئے جاتے ہیں ایک حصہ غریبوں ،فقرا کو تقسیم کیا جا تا ہے تو قربانی کرنے والے کو ثواب ملتا
ہے یہ قربانی کرنے والے کا فائدہ ہے دوسرا حصہ رشتہ داروں کو دیا جاتا ہے اس میں
بھی تین فائدے ہیں ۱۔ قرابت داری بڑھے گی ۲۔ قربانی کا ثواب ملے گا ۳ ۔ محبت بڑھے گی
ظاہر ہے جب تعلقات بہتر سے بہتر ہونگے تو یہ بھی قربانی
کرنے والے کا فائدہ ہے اور جب تیسرا حصہ اپنے استعمال میں لایا جا ئے گا تو اس میں
بھی اپنا ہی فا ئدہ ہے جب ایک عمل جو کہ سو فیصد انسان کے اپنے نفع کے لئے ہے تو
اس کو بد نیتی اور نمود و نما ئش کرکے برباد نہیں کرنا چا ہئے۔ مہنگا ئی اور
جانوروں کی آسمان سے باتیں کرتی قیمتوں نے ایک عام آدمی کے لئے قربانی کو تقریباََ
نا ممکن بنا دیا ہے دوسری طرف دیکھا جائے تو بعض ایسے بھی گھر ہیں جہاں چھ چھ سات
سات قربانیاں ہورہی ہیں خوشی کے تہواروں
پر بھی غربت اور امارت کا یہ واضح فرق ہماری خوشیوں کے رنگ میں بھنگ ڈال دیتا ہے
چاہتوں کو قربان کر دینا اور اللہ کے حکم کو عمل میں لے
آنا یہ بڑی قربانی ہے قربانی کرتے ہوئے یہ بات ذہن میں ہونا چاہئے کہ ایسا نہیں ہے
کہ جانور کے گلے پر چھری چلادی اسے ذبح کردیااور تین حصے کرکے سب کو بانٹ دیا اور
خود بھی کھا گئے لیکن اگر نیک نیتی اور اللہ کی رضا شامل حال نہیں ہے تو ایسی
قربانی کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اگر ہم
ذاتی خواہشات، نام و نمود اور دنیاوی قدروں کو حقیقی عبادت اور قربانی کے سچے
جذبوں پر ترجیح دیتے رہیں گے تب تک دنیاوی اور آخرت کی کامیابی سے دور رہیں گے۔
اصلی کامیابی کے لیے قربانی کے سچے جذبے کو سمجھنا ہوگا ورنہ محنت اور پیسے کے
ضیاع کے علاوہ اور کچھ بھی حاصل نہ ہوسکے گا۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں