قدرت کا عطا کردہ ہر موسم
لاجواب ہے اگر موسم کی سختیوں کی پہلے سے تیاری اورمقابلے کا انتظام کرلیا جائے تو
ہر موسم کا انداز نرالااور اچھوتا ہوتا ہے رنگین پھولوں کا ڈالیوں پر لہرانا اور مہکنا،
پھلوں کا درختوں سے جھولنا، پرندوں کا چہچہانا دل بے اختیار کہہ اٹھتا ہے، "اور
تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤگے "
موسم سرما کے آتے ہی جہاں نت نئے پکوان ذہن میں آتے ہیں
وہیں موسم کے پھلوں کے ساتھ خشک میوہ جات کی یاد بھی آتی ہے جو اس موسم کی سوغات ہیں
اور موسم کو پر لطف بنا دیتے ہیں۔قدرت نے پاکستان کے پہاڑی اور ٹھنڈے علاقوں کو ان
کی پیداوار کے لیے منتخب کیا ہے یہ میوے نہ صرف صحت کے لیے مفید ہیں بلکہ انسانی جسم
کو موسم کی سختیوں کا مقابلہ کرنے میں بھی مدد دیتے ہیں۔ان میوہ جات میں بادام، انجیر،
اخروٹ، پستہ، چلغوزہ، مونگ پھلی اورکاجو وغیرہ شامل ہیں۔ پہاڑی علاقوں میں مختلف پکوان
میں بھی یہ میوہ جات استعمال کیے جاتے ہیں موسم سرما کے علاوہ دوسرے موسموں میں ان
کا استعمال کم کیا جاتا ہے عام خیال ہے کہ ان کی تاثیر گرم ہوتی ہے اس لیے موسم سرما
کے علاوہ ان کا استعمال نقصان دہ ہے جب کہ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ صحت کے لیے انتہائی
مفید ہیں گری دار میوہ کے استعمال سے آسٹوپروسس کا خطرہ کم ہوتا ہے اگر کوئی طبی مسئلہ
نہ ہو تو کسی بھی موسم میں توازن و اعتدال کے ساتھ کھائے جا سکتے ہیں ایک دن میں ایک
مٹھی کی برابر مختلف اقسام کے خشک میوے کھائے جاسکتے ہیں۔یہاں کچھ بات ان کی افادیت
کی ہوجائے اور یہ بھی جانا جائے کہ پاکستان میں کن علاقوں میں ان کی کاشت کی جاتی ہے۔
قدرت کا عطا کردہ ہر موسم
لاجواب ہے اگر موسم کی سختیوں کی پہلے سے تیاری اورمقابلے کا انتظام کرلیا جائے تو
ہر موسم کا انداز نرالااور اچھوتا ہوتا ہے رنگین پھولوں کا ڈالیوں پر لہرانا اور مہکنا،
پھلوں کا درختوں سے جھولنا، پرندوں کا چہچہانا دل بے اختیار کہہ اٹھتا ہے، "اور
تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤگے "
بادام
بادام خشک میووں کا بادشاہ
کہلاتاہے لورالائی اور اس سے ملحقہ علاقوں میں اگتا ہے یہ نشاستے اور پروٹینز کا خزانہ
ہے توازن سے استعمال کیا جائے تو چربی دار وزن کم کرنے میں مدد دیتا ہے۔ ذیابیطس اور
کینسر سے بچاؤکے لیےمفید ہے۔بادام کا استعمال خون میں کولسٹرول کی سطح کو برقرار رکھتا
ہے بلڈ شوگر کی سطح کو مستحکم رکھنے میں مدد کرتا ہے۔بینائی اور دماغ کے لیے بے حد
مفید ہے قبض کشا ہے حافظہ کو تیز کرتا ہے۔ بادام میں موجود چکنائی انسانی جسم کے لیے
کارآمد ہے۔
اخروٹ
صوبہ سرحد کے علاقوں سوات، بلوچستان، مری، آزاد کشمیراور
مینگورہ میں اس کی کاشت بڑے پیمانے پر ہوتی ہے اخروٹ کا جب پھل اکھٹا کیا جاتا ہے تو
اسے فوراً استعمال نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اس وقت اس میں دودھ جیسی رطوبت ہوتی ہے اسے
کم ازکم تین ماہ کے لیے رکھ دیتے ہیں جب تک یہ رطوبت سوکھ کر مغز بن جاتی ہے اخروٹ
کا چھلکا ،پتے،جڑ مختلف امراض میں مفید ہے اس کے درخت کی چھال کو دنداسہ کے طور پر
استعمال کیا جاتا ہے اخروٹ غذائیت بخش ہوتاہے دماغ کی طاقت کے لیے بہترین ہے بلڈ پریشر،
اور دل کی بیماری میں مفید ہے کھانسی میں فائدہ کرتا ہے۔اس کا استعمال اعتدال میں کیا
جائے زیادہ استعمال سے منہ اور حلق میں چھالے اورخراش ہوسکتی ہے۔اخروٹ کو وٹامن ای،
اومیگا 3فیٹی ایسڈ اور اینٹی آکسیڈنٹ جیسے مرکبات کی وجہ سے دماغ کی خوراک کے نام سے
جانا جاتا ہے۔
چلغوزہ
چلغوزے کے درخت افغانستان، پاکستان، اور شمال مغربی بھارت
میں پائے جاتے ہیں چلغوزے کے درخت پاکستان میں شمالی علاقہ جات بلوچستان، وزیرستان،
چلاس، گلگت، پاراچنار، ڑوب، اور استوا کی وادیوں میں پائے جاتے ہیں۔پاکستان میں کوہ
سلیمان کا پہاڑی سلسلہ چلغوزوں کے درختوں سے بھرا پڑا ہے اس کے درخت کی اوسط عمر کم
وبیش سو سال ہوتی ہے۔ چلغوزے کا درخت سطح سمندر سے سات سے دس ہزار فٹ کی بلندی پر اگتا
ہے اس کی لمبائی پندرہ سے بیس فٹ تک ہوتی ہے اور اس پر لگی پائن یا کون میں چلغوزے
کا بیج ہوتا ہے۔چلغوزے کا سیزن اگست سے شروع ہوکردسمبر میں ختم ہوتا ہے۔
چلغوزے میں وٹامن ای، وٹامن
کے، میگنیشیم، فولاد، فاسفورس، پروٹین، اور دیگر غذائی اجزاپائے جاتے ہیں یہ گردے،
دل، اور جگر کے لیے مفید ہیں ان کے استعمال سے دماغی طاقت بڑھتی ہے اعصابی کمزوری اور
پٹھوں کی مضبوطی کے لیے بہترین ہیں ان کا استعمال نہ صرف تھکن سے بچاتا ہے بلکہ یہ
خلیوں کی مرمت، وزن میں کمی، قوت مدافعت میں اضافہ اور بینائی کی درستگی کے لیے مفید
ہے اس کے علاوہ فالج، کولسٹرول، ذہنی دباؤ، اعصابی تناؤ، بھوک، ذیابیطس، اعصاب، بال، جلد کے
لیے بھی مفید ہے۔زمانہ قدیم سے لوگ چلغوزے سے لطف اندوز اور فیض یاب ہوتے تھے اس کے
درخت کی بہت سی اقسام ہیں جن میں سے چند کے ہی بیج کھانے کے قابل ہوتے ہیں۔
مونگ پھلی
مونگ پھلی کی کاشت سندھ اور پنجاب میں بڑے پیمانے پرکی جاتی
ہے مونگ پھلی کی چار بنیادی اقسام ہیں رنر، ورجینا، ہسپانوی، اور والنسیا۔ مونگ پھلی
کی ہر قسم اپنے سائز ذائقہ اور غذائیت میں خاص ہے۔سردی اور مونگ پھلی کا چولی دامن
کا ساتھ ہے یہ کمزور اور دبلے پتلے افراد کے لیے مفید ہے معدے کے لیے فائدہ مند ہے
بالوں کو گرنے سے بچاتی ہے۔ خون کی کمی، دل کی کمزوری اور اعصابی دباؤکو کم کرتی ہے۔جسم
میں خارش ہونے کی صورت میں مونگ پھلی نہ کھائی جائے دمہ اور یرقان کے مریض زیادہ استعمال
نہ کریں مونگ پھلی کھانے کے فورا بعدٹھنڈا پانی پینے سے کھانسی ہوسکتی ہے۔
انجیر
انجیر قدیم ترین پھلوں میں شامل ہے اس میں وٹامنز، معدنیات
اور اینٹی آکسیڈینٹ کی بڑی مقدار پائی جاتی ہے۔ ہڈیوں اور تولیدی صحت کے ساتھ وزن میں
صحت مندانہ اضافے کے لیے بھی بہترین انتخاب ہے۔ کینسر اور ذیابیطس قسم دوئم کے خطرات
کو کم کرتی ہے۔ دوارن خون سے چربی اورنمکیات کو کم کرنے کی خاصیت کے باعث بڑھے ہوئے
بلڈ پریشر کو توازن میں لاتی ہے اور دل کی صحت کے لیے مفید ہے۔ انجیر میں موجود فائبرز
کی بڑی مقدار قبض سے بچاؤ کا مستندذریعہ ہے۔
پستہ
پستے میں وٹامنز بی 6، پوٹاشیئم، میگنیشئم، کیلشئیم اور
اینٹی آکسیڈینٹ موجود ہوتے ہیں۔ اس کے استعمال سے پھیپڑوں سے فاسد مادے خارج ہوجاتے
ہیں روزانہ مناسب مقدار میں لینے سے کینسر کا خطرہ کم ہوتا ہے مدافعتی نظام کے لیے
بہترین ہے جلد کو نرم وملائم کرتا ہے۔
کاجو
کاجو میں بے شمار منرلز اور
فیٹی ایسڈز پائے جاتے ہیں۔اس میں پائے جانے والا ٹرپٹوفین اعصابی دباؤکو کنٹرول کرتا
ہے ڈپریشن اور نیند کی کمی کاجو کے استعمال سے بہتری کی جانب آسکتی ہے۔شوگر کے مریضوں
کے لیے بہترین ہے اس میں ایسے قدرتی اجزا پائے جاتے ہیں جو خون میں موجودانسولین کو
عضلات کے خلیوں میں جذب کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں دانتوں اور ہڈیوں کے لیے مفید
ہیں۔
کشمش
یہ خشک انگور ہیں جو کہ معدنیات،
وٹامنز، فائبرز، اینٹی آکسیڈینٹس اور مفید تیزابی مادوں سے بھر پور ہوتے ہیں۔ آنکھوں،
آنتوں، جلد، اور شریانوں سے لیکر نظام ہاضمہ، اعصابی نظام اور ہڈیوں کی تشکیل تک سب
میں مفید ہے۔
خشک میوہ جات کی قیمتیںمتوسط
طبقے کی قوت خرید سے باہر ہوتی جارہی ہے اب تو وہ صرف ان کو دکانوں پر سجا ہی دیکھ
سکتے ہیں اور صرف مونگ پھلی ہی خرید پاتے ہیں لیکن اب تو لگتا ہے مونگ پھلی بھی ان
کی دسترس سے دور ہوتی جارہی ہے سوچنے کی بات ہے جب یہ میوہ جات پاکستان میں پیدا ہوتے
ہیں تو پھر اتنے مہنگے کیوں ہیں کہ کوئی بھی عام آدمی ان کو خریدنے کی استطاعت سے دور
ہے خاص طور پر چلغوزے جو اب سونے کے بھاؤمیں ہیں ایک بیش قیمت چیز بنتے جارہے ہیں تحقیقات
سے جو حقائق سامنے آئے ہیں ان میں سے چند یہ ہیں۔
خشک سالی کی وجہ سے پیداوار کی کمی اوردرختوں کی بے جا کٹائی
جو کہ مختلف وجوہات کی بنأ پر کی جاتی ہے اور حکومت کی جانب سے کوئی
پابندی نہیں لگائی جاتی اس کی وجہ ان درختوں کے مالکان ہیں جن پر پابندی نہیں لگائی
جاسکتی۔کیونکہ زیادہ تر درخت ان مالکان کی ذاتی ملکیت ہوتے ہیں۔ان درختوں کی لکڑی کافی
مضبوط ہونے کی وجہ سے فرنیچر اور دیگر سامان کی تیاری میں استعمال کی جاتی ہے۔چین میں
دنیا کی سب سے بڑی چلغوزہ مارکیٹ ہے اور پاکستان کی یہ پیداوار وہاں بھیج دی جاتی ہے
اور یہاں کی عوام اس کو دیکھنے کو بھی ترس جاتی ہے۔خشک میوہ جات کے تاجران کے مطابق
یہ چونکہ شہر سے کافی دور پہاڑوں پر اگتے ہیں ان کو شہر لانے میں بہت زیادہ خرچہ آتا
ہے کیونکہ مختلف آڑھتیوں سے ہوتے ہوئے شہر تک پہنچنا پھر تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتیں
اسے مزید قیمتی بنادیتی ہیں نتیجہ کے طور پر مارکیٹ میں اس کی قیمت بہت زیادہ ہوتی
ہے۔
میوہ جات کے درخت خاص آب و ہوا اور خاص وعلاقوں اور اونچائیوں
پر ہی اچھی نشو ونما پاتے ہیں اور پھل مہیا کرتے ہیں اس وجہ سے ہم بے بس ہیں اور شہری
علاقوں میں ان کی کاشت سے مجبور ہیں البتہ یہ کام حکومتی سطح پر ہو اور ان میوہ جات
کی کاشت کرنے والے لوگوں کو اچھی ترغیبات دی جائیں تاکہ وہ ان درختوں کوکاٹنے سے گریز
کریں اور ان کی کاشت جاری رکھیں تو اس طرح ہمیں اپنی قوت خرید کے اندر ہی یہ میوے دستیاب
ہوسکیں گے۔
کھجور، انگور، انجیر، مونگ پھلی اور بادام کی دیسی قسمیں
محدود پیمانے پر شہروں میں بھی اگائی جاسکتی ہیں۔ کراچی اورپاکستان کے دیگر شہروں میں
بھی ان کے درخت اور پودے نظر آتے ہیں۔باغبانی کے شوقین افراد کو چاہیئے کہ وہ خشک
میووں کے درختوں اور پودوں کی افزائش پر بھی توجہ دیں کم از کم تجرباتی طور پرہی انہیں
اگائیں۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں