ہر وہ شخص اپنے گھر میں اسٹیویا کا پودا لگانا چاہتا ہے جس کو اس پودے کے خواص کا پتہ چل جائے۔
کہتے ہیں کہ ہر مرض کا علاج دنیا میں ہی موجود ہے
بیماری بعد میں آتی ہے قدرت اس بیماری کے سد باب کا پہلے ہی انتظام کر دیتی ہے اب
یہ انسان کی صلاحیت پر منحصر ہے کہ وہ کس
طرح قدرت کی عطا کردہ نعمتوں اور وسائل کی
کھوج اور جستجو کرے ۔ چند سالوں سے اسٹیویا نام کے پودے کی بہت شہرت ہے اس
پودے کو ہر وہ شخص حاصل کرنا چاہتا ہے اور اپنے گھر میں یہ پودا لگانا چاہتا ہے جس
کو اس پودے کے خواص کا پتہ چل جائے۔ اس
پودے کی اتنی اہمیت کی وجہ اس کے پتوں کی مٹھاس ہے یہ کوئی عام مٹھاس نہیں ہے بلکہ
طبی لحاظ سے بھی بہت فائدے مند ہے خاص طور پر ذیابیطس کی بیماری میں اس کا فائدہ
دیکھنے میں آرہا ہے ۔اس پودے کے خواص کا جائزہ لیتے ہیں یہ کس قسم کا پودا ہے ؟اس
کے کیا فائدے ہیں ؟مٹھاس کی وجہ سے چینی کا متبادل ہوسکتا ہے ؟گھر میں اگر پودا
لگایا جائے تو چینی کی ضرورت پوری ہوسکتی ہے؟پودے
کو اگانے اور دیکھ بھال کا طریقہ اور اسے مٹھاس کے لیے کس طرح استعمال کیا
جائے؟ اس کے علاوہ بھی اور بہت سے سوالوں کا جواب آپ کو اس مضمون میں مل سکتا ہے ۔
اسٹیویا کا نباتاتی نام
Stevia Rebaudiana ہے اسے کینڈی لیف اور شہد
کا پودا بھی کہتے ہیں کیونکہ اس کے پتوں
میں قدرتی مٹھاس پائی جاتی ہے ۔
یہ سارا سال رہنے والا
بارہ ماسی پودا ہے ۔ اسٹیویا کی دوسو سے زیادہ اقسام پائی جاتی ہیں لیکن تجارتی
طور پر 90کے قریب ہی اقسام اگائی جاتی ہیں ۔اسٹیویا نیم مرطوب ٹراپیکل علاقوں کا
پودا ہے اس پودے کی اونچائی 60 سے 70 سینٹی میٹر ہوتی ہے پتوں کا رنگ ہرا پھول
چھوٹے اور سفید رنگ کے ہوتے ہیں ۔
اسٹیویا قدرتی طور پر جنوبی امریکہ اور برازیل میں پایا
جاتا ہے برازیل میں تالابوں اور ندیوں کے قریب ایک جنگلی پودے کے طور پر پایا جاتا
ہے وہاں کے لوگ اسے جڑی بوٹی کے طور پر استعمال کرتے ہیں اس کی کاشت چین،
جاپان ،برازیل بھارت اور جنوبی امریکہ میں کی جاتی ہے
پاکستان میں ابھی تک اپنی تمام تر اہمیت اور ملک میں شوگر کے موجودہ مسائل کے
باوجود تجارتی طور پر نہیں اگایا جاسکا ہے ۔
اسٹیویا کی مٹھاس چینی سے
کئی گنا زیادہ ہوتی ہے ۔اسٹیویا کا پودا نہ صرف میٹھے پتوں کی وجہ سے اہم ہے بلکہ
یہ طبی نقطہ نظر سے بھی اہم ہے اس کے پتوں میں کیلوریز نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے
کیلشیم کی مقدار زیادہ ہوتی ہے ۔اس کے پتوں میں ذیابیطس کے مریضوں میں انسولین کی
مقدار کو متوازن رکھنے کی صلاحیت ہوتی ہے خاص طور پر ذیابیطس ،وزن کم کرنے ،اور
ہائی بلڈ پریشر کے مریضوں کے
لیے بہت مفید ہیں ۔
اسٹیویا کے سوکھے ہوئے پتوں کے پاؤڈر میں بہت
زیادہ مٹھاس پائی جاتی ہے اس پاؤڈر کو چائے ،شربت،اور ہر قسم کے میٹھے
پکوان کی تیاری میں استعمال کیا جاسکتا ہے لیکن یہاں یہ بات بھی بہت اہم ہے کہ اسٹیویا کے پتوں کا پاؤڈر ہرے رنگ کا ہی ہوگا
کیونکہ پتوں کا قدرتی رنگ ہرا ہوتا ہے سوکھے ہرے پتوں کا جب پاؤڈر بنایا جائے گا
تو وہی رنگ اس کا اصل رنگ ہے جبکہ سفید رنگ میں ملنے والے اسٹیویا پاؤڈر کو مختلف
پروسس سے گزار کر کیمیکلز شامل کیے جاتے
ہیں اس قسم کے پاؤڈر اور چینی میں کوئی فرق نہیں چینی بھی ان کیمیکلز کی وجہ سے
نقصان دہ ہے ۔
یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ اسٹیویا کے ہرے اور تازہ
پتوں میں اتنی مٹھاس نہیں ہوتی ہے جبکہ سوکھے پتے زیادہ میٹھے ہوتے ہیں تازہ پتے
استعمال کے لیے مفید بھی نہیں ہیں ۔اسٹیویا کے پتوں کو سکھانا بہت آسان ہے ٹہنی کے
ساتھ ہی توڑ لیا جائے سایہ میں ٹہنی کو الٹا لٹکا دیا جائے چند دنوں میں ہی سوکھ
جائیں گے پھر ان کا پاؤڈر بناکر ائر ٹائٹ جار میں رکھیں ۔
اسٹیویا کے پودوں کو اگانا اور دیکھ بھال
اسٹیویا گرمی کا پودا ہے گرم مرطوب آب و ہوا میں اچھی نشوونما
کرتا ہے فروری سے مارچ کا مہینہ نشونما کے لیے بہترین ہے ۔اگر اچھی دیکھ بھال کی
جائے تو کراچی کا موسم اس کے لیے بہترین ہوسکتا ہے سرد علاقوں میں اس کی پیداور
مشکل ہے سرد موسم میں یہ ڈورمینسی میں چلا جاتا ہے ۔بہترین نکاسی کے ساتھ کھاد
بالو مٹی اور ریت ملاکر پودے لگائیں۔کھاری مٹی کھاری زمین اور کھاری پانی میں اس
کے پودے نہ لگائیں ۔پودے کی نشوونما کے لیے مٹی کا پی ایچ 6.5کے درمیان بہتر ہے ۔
اسٹیویا کو زمین کے علاوہ ہرقسم کے گملے میں لگایا جاسکتا ہے یہ بیج اور کٹنگ
دونوں طرح سے بہت آسانی سے لگایا جاسکتا ہے سال میں دوبار لگائے جاسکتے ہیں موسم
گرما اور موسم خزاں ۔فروری میں بیج بویا جاتا ہے اس کی پہلے پنیری تیار کی جاتی ہے
مارچ اپریل تک پنیری تیار ہوجاتی ہے اور دوسری جگہ منتقل کرنے کے لیے پودے تیار
ہوجاتے ہیں ۔ خزاں میں کاشت کے لیے اگست سے ستمبر میں بیج لگائیں اور اکتوبر نومبر
میں منتقل کریں۔
اسٹیویا کے پودے کو دھوپ میں رکھیں پانی خشک نہ ہو اور
کیچڑ بھی نہ بنے اگر ایک بار یہ پودا لگ گیا نشوونما شروع ہوگئی تو خود ہی بڑھتا
رہے گا جس طرح اوریگانو اور تلسی شروع میں مشکل ہوتی ہے لیکن جب پودے بڑھنے لگتے
ہیں تو آسانی ہوجاتی ہے اگر آپ پودوں کے اور
باغبانی کے بارے میں زیادہ کچھ نہیں جانتے تب یہ پودے خراب ہوسکتے ہیں ۔
اگر زمین میں لگا ہے نشوونما اچھی ہے تو سردیوں میں بھی
ٹھیک رہے گا لیکن زیادہ ٹھنڈ سے بچانے کا انتظام کرنا ضروری ہے ۔فروری کے مہینے
میں پروننگ ضروری ہے اوپر سے پودے کو کاٹ دیں مزید شاخیں نکل آئیں گی خزاں کے موسم
میں ستمبر یا اکتوبر کے موسم میں کلیاں نمودار ہوتی ہیں لیکن ان کے کھلنے سے پہلے
ہی پودے کی کٹائی کردیں صبح کے وقت کٹائی کرنا بہتر ہے کیونکہ اس وقت چینی کی
مقدار زیادہ ہوتی ہے اگر پھول کھل گئے پتے لگے رہے تو ذائقہ تلخ ہو جائے گا ۔بہت
زیادہ گرم موسم میں دوپہر کی دھوپ سے بچانا بھی ضروری ہے ۔بہت زیادہ گرمی میں صبح
یا شام کی دھوپ اور نمی کی ضرورت ہوگی ۔
کیمیکل کھاد کو
اسٹیویا سے دور رکھیں گوبر کھاد اور کچن ویسٹ کمپوسٹ بہترین ہے ۔ پودے کو گھنا بنانے کے
لیے پنچنگ کرتے رہیں ۔
گھر بھر کی چینی کی
ضرورت کے لیے ایک دو پودے کافی نہیں ہوتے اگر چار یا پانچ افراد کی فیملی
ہے تو اچھی گروتھ والے دس سے بارہ پودے کافی ہونگے ۔ ایک کلو فریش پتے سوکھنے کے
بعد آٹھ سو گرام ہی رہ جاتے ہیں اور اتنا ہی پاؤڈر تیار ہوسکتا ہے ۔
سوکھے پتوں کا ایک چٹکی پاؤڈر ایک کپ چائے یا کافی کے لیے مناسب ہوگا مٹھاس کی مقدار اپنی
پسند سے کم یا زیادہ کرسکتے ہیں ۔اگر مناسب عمر میں چینی کے بجائے اسٹیویا کی
مٹھاس استعمال میں رکھی جائے تو آگے چل کر
بہت سی بیماریوں سے بچاجاسکتا ہے جس میں ذیابیطس ،ہائی بلڈپریشر اور موٹاپا اہم
ہیں ۔شوگر کے وہ نئے مریض جو ابھی ادویات نہیں لے رہے ہیں ان کے لیے تو
بہترین ہے لیکن جو ادویات استعمال کررہے ہیں وہ ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق ہی
استعمال کریں ۔اسٹیویا قدرتی جڑیں بوٹی ضرور ہے لیکن جس طرح ہر چیز کی زیادتی
نقصان دہ ہے اس ہی طرح اس کی مقدار کو بھی کنٹرول میں رکھیں کیونکہ لو بلڈ پریشر
ہوسکتا ہے ۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں