ذندگی کے وجود میں آتے ہی بقأ کی جدوجہد شروع ہوجاتی ہےخطرات سے بچاؤ کے لیے
قدرت نے ہمیں خوف کا احساس بخشا ہے تاکہ ہم اپنی ذندگی کو محفوظ رکھ سکیں۔ غصہ دراصل خوف ہی کی ایک شکل ہے جو ہمیں نقصان سے بچانے کی خاطرمقابلے
کے لیے تیار کرتا ہے۔ مگر اس لالچی اور خود غرض دنیا میں انسان توازن برقرار نہیں رکھ پاتا اس طرح غصہ
اس کے قابو سے باہر ہوجاتا ہے۔ غصہ ایک ایسا رویہ ہے جسے کوئی بھی پسند نہیں کرتا
یہ نہ صرف شخصیت کو داغدار کرتا ہے بلکہ جسم کے اندرونی قوت مدافعت کے نظام پر بار بار بوجھ ڈال کر انسان کو السر، فالج، ہائی بلڈ پریشر اور دل کے امراض
میں مبتلا کردیتا ہے۔
زندگی محرومیوں اور ناکامیوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے۔
دنیا میں کوئی شخص ایسا نہیں جسے ناکامی
کا سامنا نہیں کرناپڑتا ہو۔ اپنی ناکامی
کا احساس ہونے پر غصہ غالب آتا ہے ایک مکمل صحت مند انسان بھی ناموافق حالات میں
غصہ کا ردعمل ظاہر کرسکتا ہے۔ ذہنی طور پر متوازن ہر شخص اس کیفیت پر قابو پانے کی
صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ جبکہ ذہنی طور پر کمزور لوگ زیادہ حساس ہوتے ہیں وہ چڑچڑاہٹ
کا شکار ہو کر اپنا اور دوسروں کا سکون خراب کرتے ہیں اور اعصابی کشیدگی کا
شکار ہوجاتے ہیں۔ اکثر انسان اپنے آپ کو ہی متاثرہ شخص سمجھتا ہے اور اپنے مصائب
کی ذمہ داری دوسروں پر ڈال کر اپنے آپ کو مظلوم ثابت کرتا ہے لوگ سمجھتے ہیں کہ غصہ سب کچھ ٹھیک کردے گا لیکن ایسا نہیں ہوتا بلکہ غصہ ان کے مزاج کا
حصہ بن جاتا ہے اکثر غصہ زندگی کو بگاڑ کر
رکھ دیتا ہے غصہ کی رو میں بہہ جانے کے
باعث کئی لوگ اپنا اونچا مقا م گنوا بیٹھتے ہیں غصہ ایک لمحے میں برسوں کا کام،
محنت اور تجربے کے پھل کو دور پھینک دیتا ہے
لوگ غصہ کے جوش میں شیطان بن جاتے ہیں۔ غصہ میں انسان اپنا منہ کھول دیتا ہے اور آنکھیں بند کرلیتا ہے اگر غصہ پر قابو نہ
پا یا جائے تو یہ آدمی پر قابو پالیتا ہے ذہن کو ماؤف کردیتا ہے اور شخصیت میں کشش نہیں
رہتی انسان دوسروں کی نظر میں گرجاتا ہے
اس کی سوچ منفی ہو جاتی ہے ذہنی اور
جسمانی عوارض پیدا ہوجاتے ہیں اور اضطرابی
کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔
اکثر دوسروں کی غلطی کو سدھارنے کے لئے غصہ کرکے غلطی کی
جاتی ہے کیوں کہ غصہ بھی ایک غلطی ہے دیکھا گیا ہے کہ آہستہ بولنے پر کوئی نہیں سنتا
ہے زور سے بولنے سے کام ہوجاتا ہے شدید ردعمل ظاہر کرنا مشکل نہیں ڈر کے لوگ بات مان لیتے ہیں اس بات پر یقین
کرکے ہم اپنا کام نکال لیتے ہیں مگر یہ کوئی نہیں سوچتا کہ اس سے کام تو ہو
گیا مگر ہماری طاقت کم ہو گئی اس وقت اگر بلڈپریشر اور نبض چیک کی جائے تو بہت تیز ہوگی زبان لڑکھڑائے گی اور الفاظ بدل جائیں گے۔ غصہ میں لوگ ادب تہذیب اور انسانیت کے تقاضے
بھول بیٹھتے ہیں۔
جہاں انسان کا زور چلتا ہے غصہ بھی وہیں کرتا ہے اگر یہ بات
انسان سمجھ لے تو یہ بھی اس کے ہاتھ میں
ہے کہ غصہ کتنا اور کب کرنا ہے ۔ ہمارے اردگرد کا ماحول اور روزمرہ پیش آنے والے
واقعات یا ہمارے آس پاس رہنے والے
لوگ ہمیں تبدیل نہیں کرسکتے ہیں اپنے آپ
میں یہ تبدیلی ہم خود پیدا کرسکتے ہیں کیونکہ ہمارا سب سے
ذیادہ اختیار ہماری اپنی ذات پر ہوتا ہے۔ اس کی تمام تر ذمہ داری ہمارے خیالات پر
عائد ہوتی ہے جو اپنے آپ کو بس میں رکھتا ہے وہی دوسروں کو متاثر کرنے کی صلا حیت
رکھتا ہے۔ گردوپیش کے لوگوں کے ساتھ مہربانی سے پیش آئیں۔غصہ کی وجہ موجود ہونے پر
بھی جو پرسکون رہے وہی عظیم انسان ہے۔ دنیا میں اگر ہر شخص اپنی ذات کی ذمہ داری
خود قبول کرلے اور اپنے مسائل کا سبب دوسروں کو نہ سمجھے تو غصہ جیسی مصیبت سے با
آسانی چھٹکارہ حاصل کیا جاسکتاہے۔غصہ پر
قابو کے لیے توازن کے پیمانے طے کرنا کوئی مشکل کام نہیں۔ غصہ تو آئے گا یہ انسانی
فطرت ہے اپنے جان و مال اور عزت و خودداری
کی حفاظت انسان کا حق ہے اس کے لیے اتنا غصہ جو صرف حق کی حفاظت توکرے مگر کسی کو ناجائز نقصان نہ پہنچائے مشکل
ضرور ہے مگر ناممکن نہیں لیکن انا پروردہ ہوجانا ضد اور ہٹ دھرمی کا غلام بن کر
محض اپنے آپ کو ہی عزت دار سمجھنا اور دوسروں کو بے عزت کرنا غصہ کا ناجائز استعمال ہے۔ صبر وتحمل اور
دلیل کے ساتھ کسی کو اپنے حق کے لیے قائل کرنا
بہت بڑا ہنر ہے مگر جب ہی ممکن ہے جب غصہ کو قابو میں رکھنا آتا ہو۔ جلد
بازی اور ناکامی کا خوف ہمیں غصہ جیسے رویوں کا شکار بنا کر محروم اور بےبس کردیتا
ہے۔ قدرت پر اعتماد اور قسمت پر یقین کامیابی کی ضمانت ہے کامیابی کا یقین جتنا پختہ ہوگا غصہ
پر اتنا ہی اچھا قابو ہوگا۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں