خوف دراصل انسانی ذہن میں پیدا ہونے والا ایک ابتدائی جذبہ
ہے جو کہ غصے، انتقام، حسد، احتیاط،
قربانی اور جنون جیسے ثانوی جذبات کو طاقت
بخشتا ہے اگر اللہ کی حکمتوں پر غور کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ خوف انسانی بقأ
کے لیے کتنا ضروری ہے اگر ذہن میں اس کا بیج نہ پھوٹے تو انسان اپنی ذندگی کے تحفظ
کی صلاحیت سے محروم ہوجائے اور لاعلمی میں کسی بھی مصیبت کا شکار ہوجائے۔ جب کوئی
انسان یا معاشرہ عدم تحفظ اوراحساس
محرومی کا شکار ہونے لگے تو خوف مستقل طور
پر اس کے ذہن کو اپنی آماجگاہ بنا لیتا ہے۔ کچھ خوف ہمارے اندر فطری
ہیں جو ہمیں بتاتے ہیں کہ ہم انسان ہیں کوئی ماورائی مخلوق نہیں بچہ جب دنیا میں
آتا ہے تو اسے عدم تحفظ کا احساس ہوتا ہے کیوں کہ وہ ایک ایسی دنیا سے آیا ہوتا ہے
جہاں مکمل خاموشی اور تحفظ تھا۔قدرت کے
بخشے ہوئے پیدائشی خوف بلندی اور شور
انسان کی بقأ کے لئے ضروری ہیں اور آنے والے خطرے سے روکتے ہیں اس کے علاوہ دیگر خوف
حالات و واقعات کے باعث ہوتے ہیں یا دنیا کے دوسرے لوگ اپنے مفادات کے لیے یا
پھر روایتاً ہمارے ذہنوں میں بٹھاتے ہیں۔ یوں خوف ہمارے شعوری اور لاشعوری نظام کا
لازمی جز بن جاتا ہے۔ خطرے کی سامنے موجودگی
سے ڈر کا احساس جاگتا ہے جو تحفظ کے عملی اقدام کا تقاضہ کرتا ہے لیکن خوف محض
خطرے کے احساس کے باعث ہوتا ہے انسان یہ
بھی نہیں سمجھ پاتا کہ اس کا کیا ردعمل ہونا چاہیئے اور انسان بے چینی میں مبتلا
ہوجاتا ہے۔
مثبت سوچ ہمیں جرأت حوصلہ اور عزم عطا کرتی ہے جبکہ منفیت
ہمیں ایسے ذہن سے نوازتی ہے جسکی بنیاد بزدلی،ہچکچاہٹ،قوت ارادی کے فقدان، اعتماد کی کمی اور انجانے خدشات پر قائم ہوتی ہے۔ خوف وقتی ہو تو کوئی حرج نہیں ہے اکثر خوف
کم علمی کا نتیجہ ہوتے ہیں بچپن میں کسی
چیز کا خوف دماغ میں بیٹھ جائے تو وہ
برسوں تک ذہن میں موجود رہتا ہے اس سے
انسان کی سوچ اور ذہن متاثر ہوتا ہے کیونکہ خوف وقت کے ساتھ بڑے ہوجاتے ہیں ۔
خوف کی گرہ ذہن میں بیٹھ جائے تو کسی طرح لا شعور سے نکلنے
کا نام نہیں لیتی ہے ۔ خوف نظر نہیں آتا مگر آہستہ آہستہ انسان کو اندر ہی اندر کھوکھلا
کردیتا ہے۔ اس کے باعث انسان پریشان اور نڈھال رہتا ہے اور ذہن پر ہر وقت ایک
انجانا سا احساس ڈنک مارتا رہتا ہے کہ کہیں کوئی ایسی بات نہ ہوجائے جو نقصان کا
باعث ہو اس طرح وہ سماجی زندگی سے بھی دور ہونے لگتا ہے ۔
خوف کوئی بیرونی چیز نہیں ہے۔انسان اپنا خوف خود تخلیق کرتا
ہے اور جس چیز کو وہ خود تخلیق کرتا ہے اس کو ختم کرنا بھی انسان کے اختیار میں ہے
کیونکہ پریشانی حالات سے نہیں خیالات سے پیدا ہوتی ہےجس چیز کو انسان سچ سمجھ رہا
ہوتا ہے وہ اسکی عادت بن جاتی ہے کسی کو اندھیرے سے ڈر محسوس ہوتا ہے ،کسی کو
تنہائی سے ، کوئی راستے میں آنے والے کتے سے کسی کو چور ڈاکو کا خوف ،سفر میں
ایکسڈنٹ کا خوف تو کسی کو چھپکلی کا خوف، کسی کو جنوں اور بھوتوں سے تو کسی کو
انجانے دشمن سے ، کوئی آنے والے وقت سے
خوفزدہ ،تو کوئی بیتے ہوئے ماضی سے ڈرتا ہے جب بھی زندگی میں کوئی واقعہ یا خیال پریشان کرتا ہےتو ہم فوری طور پر اپنے تناظر کے مطابق خیالات گھڑنے لگتے ہیں اور
ہمارے یہ خیالات ہی خوف پیدا کرنے کا باعث
بنتے ہیں جبکہ حقیقت کچھ اور ہو تی ہے لوگ
کامیابی کے قریب آکر ناکامی کے خوف کی وجہ سے آگے نہیں بڑھتے اور اس خوف کے زیر
اثر آکر وہیں ختم ہوجاتے ہیں ایسے افراد ناکامی کے بعد خودکشی تک کرلیتے ہیں وہ یہ
سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے ہیں کہ ناکامی ہی کامیابی کا زینہ ہے۔یہ نہیں کہا جاسکتا
ہے کہ جس کے پاس سب کچھ ہے وہ خوفزدہ نہیں ہوگا
اسے اپنی چیزوں کے کھوجانے یا چھن جانے کا خوف ضرور ہوگا ۔
کسی ایسے شخص کو جسے دبے ہوئے پیچیدہ خوف نے گھیر رکھا ہو وہ کامیابی حاصل کرنے کے لئے اپنی قوت ارادی کو
بروئے کار لائے اور ذہنی تربیت کے اصول اپنائے خوف پیدا کرنے والے عناصر کو پہچانےاپنے دبے
ہوئے خوف کو باہر نکالے اسکا اظہار کرے
چھوٹی چھوٹی باتوں پر اشتعال اور چڑچڑے پن کا مظاہرہ نہ کرے اپنے ان محرکات
کو شعوری طور پر دہرائے جو اس کے خوف کی تہ میں پوشیدہ ہیں یہ بات جان لیں کہ خوف
باہر سے نہیں آتا اس کی آماجگاہ خود ہمارا
ذہن ہے انجانے خوف اور واہموں کو خود سے
نکال دیں مستقبل کی فکر اور ماضی میں غلطاں رہنے کی بجائے اپنے حال کو سنواریں صرف
موت کی حقیقت کو تسلیم کریں۔ ایک بار یہ ضرور سوچیں کہ جب ہم موت کو برحق سمجھتے
ہیں اور بغیر کسی خوف کے نہ صرف اسے قبول کرتے ہیں بلکہ اس کی تیاری بھی کرتے ہیں
تو پھر ہم چھوٹے چھوٹے خطرات سے کیوں
خوفزدہ ہوتے ہیں۔ صرف اللہ پر بھروسہ رکھیں اس کی دی ہوئی نعمتوں کا شکر ادا
کریں جس طرح روشنی کا نہ ہونا اندھیرے کا
باعث ہے اسی طرح ایمان و اعتماد کا نہ ہونا خوف کا باعث ہے ۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں