اللہ
تعالی نے اپنی قدرت سے کائنات کو سجایا اور پھر زمین کا تحفہ انسانوں کو عطا
فرمایا اس عظیم تحفہ کے حق کو ادا کرنے کے لیے انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ
اور صلاحیتیں عطا کی گئیں تسخیر کائنات اور اگلی لازوال ذندگی کی رعنائیاں حاصل کرنے کے لیے اپنے پیغمبروں کو دنیا کا
معلم بنا کر بھیجا۔ ذندگی کی بقا و توازن ،
خودداری و معیار آدمیت کو برقرار
رکھنے کے لیے جذبات جیسے
اوزاروں سے نوازا اور علم و آگہی عطا کرکے اپنےنائب کے منصب پر فائز
فرمایا۔ دنیا میں پھیلی نعمتوں کاانسان کو
حق دار قرار دیا گیا۔ مگر انسانی فطری
بشری کمزوریوں کو بھی قابو نہ کرسکا جس نے نوع انسانی کو ازل سے آزمائش میں مبتلا
کئے رکھا۔ کائنات کا سب سے پہلا گناہ شایدحسد
ہی تھا جو ابلیس نے آدمؑ سے کیا تھا۔جس کے
نتیجے میں وہ شیطان قرار پایا اور اللہ کی لعنت کا مستحق بنا۔
حسد
عدم تحفظ اور ناآسودگی کے باعث پیدا ہونے والے جذبات کا منفی اظہار ہے جو انسان کو
اپنے لیے جدوجہد کرنے کے بجائے دوسروں کو محروم کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ جبکہ اس کا
متوازی جذبہ رشک ہے جو انسان کو اس قابل
بناتا ہے کہ وہ خود کے لیے آسودگی حاصل کرسکے۔ رشک کے نتیجے میں انسان کسی کی خوبیوں سے متاثر ہو
کر اس جیسا بننے کی کوشش کرتا ہے اس کے دل میں دوسروں سے وہ نعمت چھن جا نے کی تمنا نہیں ہوتی بلکہ اپنے لیے بھی ایسی نعمت حاصل کرنے کی آرزو
جاگ جاتی ہے۔
ہمارے
معاشرے میں کسی کی اچھی چیزوں سے جلنا،کسی کے ظاہری اوصاف سے حسد،کسی کی مالی ترقی
سے حسد،کسی کی اولاد بالخصوص اولاد نرینہ سے حسد،کسی کی خوشی وراحت کو دیکھ کر جلن
اس کے علاوہ بھی حسد کی لا محدود صورتیں ہیں۔حسد کا بنیادی سبب تویہ ہے کہ حاسداس
نعمت سے محروم ہے جو دوسرے کو مل گئی ہےکسی کے خلاف نفرت بھی اس کا سبب ہو سکتی ہے
حسد نفرت کو اور نفرت حسد کو جنم دیتی ہے بعض لوگ غرور وتکبر میں بھی حسد کرتے ہیں
وہ سمجھتے ہیں کہ کامیابیوں اور آسائشوں پر صرف ہمارا حق ہے بعض لوگوں کی سوچ ہی
منفی ہوتی ہے یہ لوگ ہر بات کا منفی پہلو نکالتے ہیں اور نکتہ چینی کے ماہر ہوتے
ہیں لوگوں کی کامیابیوں پر نا خوش ہوتے ہیں وہ اس بات کو قبول نہیں کرتے ہیں کہ
محنت اور لگن سے کامیابی حاصل کی جاتی ہے ۔
حاسد
شخص کوصرف اس وقت خوشی ہوتی ہےجب اس کا مدمقابل کسی معاملے میں ناکام ہوجاتا ہے
حالانکہ اس کی ناکامی سے حاسد کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا ہے بلکہ الٹا نقصان ہی ہوتا
ہے حاسد نفسیاتی اذیت تو اٹھاتا ہی ہے اس کے علاوہ وہ مختلف ذہنی اور جسمانی امراض
میں بھی مبتلا ہوجاتا ہےیعنی حاسد کی سزا کا عمل اس دنیا سے ہی شروع ہوجاتا ہے حسد
کی دشمنی فساد کی طرف لے جاتی ہے جس سے گھر اور معاشرے میں فساد پھیل سکتا ہے دیگر
اخلاقی گناہ غیبت،بہتان،تجسس، اور جھوٹ کا سبب بھی حسد ہی ہے حسد وہ دہشت گردی ہے
جو انسان کے وجود کو لہولہان کردیتی ہے حسد سے ڈپریشن، احساس کمتری، چڑچڑاپن اور فالج
جنم لیتا ہے حاسد قابل رحم اور بدنصیب شخص ہے کیوں کہ وہ نہ صرف اپنی نیکیاں دوسرے
کی جھولی میں ڈال دیتا ہے بلکہ اپنے رب کی طرف سے دی گئی خوشیوں سے بھی دور کر دیا
جاتا ہے حدیث میں بھی ہے کہ حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جیسے آگ لکڑی
کو۔حاسد اپنی آگ میں خود جلتا ہے انسان کا یہ شیوہ نہیں کہ وہ کسی کی نعمتوں کو
دیکھ کر جلے ۔ دنیا اور آخرت کی بھلائی کے لئے اس بیماری کو جاننا اور اس سے بچنے
کی تدابیر اختیا ر کرنا ضروری ہے۔
جذباتی
ردعمل اور منفی رویوں کے اظہار پر قابو پا کر ہی حسد کو زیر کیا جاسکتا ہے۔ اس
کامیابی کا آغاز آگہی سے ہوتا ہے آگہی سے
ہی آپ کو پتہ چلتا ہے کہ آپ کا ذہن دوسرے کی کامیابیوں پر جو خیالات تراش رہا ہے
وہ سچائی کے معیار پر ہیں یا نہیں۔ اگر اس حقیقت کو آپ جان لیں اور دوسرے کے حق کا
احساس کرلیں تو حسد رشک میں بدل سکتا ہے۔ صرف ایک بار آپ بھی ایسی کامیابی حاصل
کرلیں تو آپ کا ایمان بھی اس بات پر پختہ ہوجائے گا کہ حسد اور غصہ کسی بھی
صورتحال سے نمٹنے کے لیے اچھے ہتھیار نہیں ہیں۔ بار بار کی کامیابی آپ کو اتنا
ماہر بنا سکتی ہے کہ آپ سب کو پیچھے
چھوڑجائیں لیکن اگر خدانخواستہ آپ حسد کا شکار ہوگئے تو آپ کا نام ناکام لوگوں کی مثال کے طور پر
دہرایا جائے گا۔ حسد پر قابو پانے سے عدم تحفظ اور نا آسودگی کا احساس کبھی انسان
کے قریب نہیں پھٹکتا اور انسان ہر حال میں خوش رہ سکتا ہے۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں