نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

خوش قسمتی

کسی شخص کی خواہش کے بغیر اس کی مرضی سے ہٹ کر خود بخود زندگی میں واقعات کا پیش آنا قسمت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔قسمت کا مفروضہ یہ ہے کہ  دنیا  میں اور لوگوں کی زندگیوں میں سب کچھ قدرتی طور پہلے سے مقرر شدہ ہے۔ فطرت کے مطابق جو ہونا ہے اس کا تعین جو ہستی کرتی ہے  انسانی عقل نے اپنے پیغمبروں کی رہنمائی سے اسے اللہ کے نام سے پہچانا ہے۔دنیا کی ہر پیش رفت لوح محفوظ میں درج ہے اس پر کسی انسان کی دسترس نہیں۔

اللہ نے انسان کو بے پناہ صلاحیتوں سے نواز کر اشرف المخلو قات کا درجہ دیا اور  دنیا میں اپنا نائب بنا کر بھیجا انسان کو عقل و فراست جیسی نعمتوں  سے نوازا تا کہ وہ اپنے لئے درست راہ کا انتخاب کر سکے  اور یہ راستے برائی اور بھلائی کے راستے ہیں اللہ نے یہ دونوں راستے انسان پر واضح کر دیے  ہیں ان راستوں کو اختیار کرنے میں انسان آزاد ہے کہ وہ صحیح راستے کے حصول کے لئے کوشش کرے۔اور ہر راستے کا نتیجہ الگ ہے اور یہ نتیجہ بھی اسی قسمت کا مرہون منت ہے۔ انسان کے اختیار کی آزادی محدود ہے وہ اپنی ایک ٹانگ تو اٹھا سکتا ہے مگر اس کی قسمت میں ایک ساتھ دونوں ٹانگیں اٹھانے کی صلاحیت نہیں ہے۔ قسمت سے آگے بڑھ کر کچھ کیا جائے تو اس کا کچھ نہ کچھ اثر پیدا ہوتا ہے۔ بد قسمت لوگ خود کو آزاد محسوس کرتے ہیں لیکن وہ یہ نہیں جانتے کہ  اختیار سے بڑھ کر کیے جانے والے اقدام سے کیا  اثرات پیدا ہونگے۔ اللہ مالک کائنات ہے اس دنیا میں کوئی کام اللہ کی مرضی کے بغیر نہیں ہوتا لیکن بعض معاملات میں انسان کو اختیار دیا ہے اللہ نے کچھ حدود مقرر کی ہیں بعض معاملات اللہ کے ہاتھ میں ہیں وہ انسان نہیں بدل سکتا جیسا کہ اس کی پیدائش  و موت، اسکا خاندان ، رنگ ونسل،شکل وصورت، انسان میں  صلاحیتوں کے بیج وغیرہ لیکن بعض معاملات میں انسان کو آزادی دی گئی ہے کہ انسان اپنے اعمال و افعال میں آزاد ہے یہ ہی وجہ ہے کہ وہ اپنے اعمال و افعال کا ذمہ دار ہے اور اس پر ہی اس کی نیکی اور بدی کا تعین کیا گیا ہے یہ دنیا ایک امتحان گاہ ہے یہاں خوشی وسکون کے ساتھ دکھ و بیماری بھی ہوگی اب یہ انسان پر منحصر ہے کہ اسے خوشیاں حاصل کرنا ہیں یا دکھ درد اور تنگی فقیری میں زندگی گزارنا ہے جو پانا ہے اپنی کوشش سے پانا ہے۔

اللہ  نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی جس کو خود اپنی حالت بدلنے کا خیال نہ ہو مشہور مقولہ ہے ''جیسی کرنی ویسی بھرنی،،

آج ہمارا جو بھی عمل ہوگا ہمیں نتیجہ اس ہی کے مطابق ملے گا ہمارا عمل  چاہے  جسمانی ہو ہمارے الفاظ ہوں یا صرف ہماری سوچ  ہو  یہ دوسروں کو متاثر کرتی ہیں اور پھر پلٹ کر ہماری طرف آتی ہیں۔

ہماری قسمت کا دارومدار ہماری سوچ کے معیار پر ہے پھر ناکامی پر قسمت کو مورد الزام ٹہرانا غلط ہے ناکامی پر انسان تدبیر کو چھوڑ کر تقدیر کے سرہانے بیٹھ کر روتا ہے اور نتیجے میں آہیں اور سسکیاں اس کا مقدر ہوتی ہیں بعض اوقات ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حالات ہمارے بس میں نہیں ہیں صرف پریشانیاں ہی ہیں لیکن اگر دیکھا جائے تو ایسا ہو نہیں سکتا دنیا میں کوئی مسئلہ ایسا نہیں  جس کا حل نہ ہو انسان کے پاس کوئی نہ کوئی راستہ کوئی نہ کوئی حل اور کوئی نہ کوئی مداوا ضرور ہوتا ہے جس سے وہ  مشکلات سے نکلنے کی کوشش کرتا ہے کوشش میں بہت طاقت ہے اس طاقت سے فائدہ اٹھا کر انسان مشکلات سے باہر آجاتا ہے  ۔ فطرت کے اصولوں کی پاسداری اور اپنے اختیارات کے اندر کی جستجو ہماری کامیابی کی ضمانت ہے۔


آپ جس نظریہ سے دنیا کو دیکھیں گے یہ دنیا آپ کو ایسی ہی نظر آئے گی آپ دنیا کو نہیں بدل سکتے اپنا نظریہ بدلیں دنیا خود بخود بدل جائے گی  نظریہ دراصل ہماری عادتیں اور ہمارا یقین ہے  اللہ نے انسان کو سب سے ذیادہ اختیار اس کی اپنی ذات پہ  دیا ہے اپنی ذات کو اپنے اختیارات کی حدود میں آزادی سے برتنے کا فن جب ہی آتا ہے   جب قسمت کو اللہ سے منسوب کریں اور اختیارات کو تدبر سے استعمال کریں ۔ اگرچہ قسمت کو پراسرار اور ناقابل فہم سمجھا جاتا ہے  اگر لوگ اپنے رب سے رجوع کریں اور اپنی نیتوں کو  اس کے ارادوں کے تابع بنالیں تو یہ گتھی سلجھنا کوئی بڑی بات نہیں۔ دانا کہہ گئے  ہیں کے بھلائی کا بیج بوؤ تو اچھی عادت کی فصل ملے گی  اچھی عادت کا بیج بوؤ تو مثبت کردار کی فصل ملے گی  اور مثبت کردار کا بیج بوؤ تو خوش قسمتی کی فصل ملے گی۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

گملوں میں آسانی سے سبزیاں اگائیں ۔

    گھر بیٹھےمدافعتی نظام کو متحرک   رکھنے والی قدرتی خوراک حاصل کریں۔ گھریلو باغبانی نہ صرف ایک   صحت مند سرگرمی ہے بلکہ ہم اپنے   گھر میں ہی آلودگی اور کیمیکل کے اثرات سے پاک سبزیوں کا لطف اٹھا سکتے ہیں۔ اگر شوق ہے تو اس مضمون کے ذریعے موسم گرما میں سبزیوں کی   گھریلو سطح پر بوائی کی معلومات حاصل کریں۔اور حقیقت میں   مدافعتی نظام کو متحرک رکھنے والی قدرتی خوراک حاصل کریں۔ موسم گرما کی سبزیاں اگانے کے لیے پندرہ فروری سے بہترین وقت شروع ہوجاتا ہے فروری سے مارچ اپریل تک سبزیوں کے بیج بوئے جاسکتے ہیں کچھ علاقوں میں اپریل کے بعد بھی بیج بوسکتے ہیں لیکن سخت گرمی اور لو میں بیجوں سے پودے نکلنا مشکل ہوتا ہے۔جن گملوں میں سبزی اگائی جائے وہ گملہ بارہ انچ سے بڑا ہو۔   گملہ جتنا بڑا ہوگا پودے کی نشوونما بھی اچھی ہوگی اور سبزی بھی وافر مقدار میں میسر آسکے گی سبزیوں کے لیے موسم گرما میں صبح کی پانچ سے چھ گھنٹے کی دھوپ لازمی ہوتی ہے۔ سبزی کے پودے کو صبح ایک بار پانی لازمی دیں تیز دھوپ اور لو سے بچاؤ کے   لیے گرین نیٹ کا استعمال بھی کرسکتے ہیں پودے کو گ...

معیاری سبزی کے لیے نامیاتی کھاد کی تیاری

زمین کی زرخیزی بڑھانے کے لیے مختلف قسم کی کھاد کا  استعمال ضروری ہوتا ہے۔کھاد میں دیگر کار آمد اشیا کے علاوہ نائٹروجن کے مرکبات بھی موجود ہوتے ہیں۔ جب پودوں کو پانی دیا جاتا ہے تو یہ مرکبات پانی میں حل ہو جاتے ہیں اور پھر پودے کی جڑیں اُن کو چوس کر تنے، شاخوں اور پتوں وغیرہ تک پہنچا دیتی ہیں۔ جانوروں کے فضلے سے جو کھاد خود بخود بن جاتی ہے اُس کی مقدار محدود ہے اور تمام ضروریات کو پورا نہیں کر سکتی ۔ لہٰذا بعض کیمیائی مرکبات مصنوعی کھاد کے طور پر استعمال کیے جاتے ہیں  جن کے ذیلی اثرات انسانی جسم پر مضر ردعمل  پیدا کرسکتے ہیں۔ البتہ نامیاتی کھاد  کی تیاری سے اس خرابی سے محفوظ رہا جاسکتا ہے جس میں قدرتی طور پر  نائٹروجن کے مرکبات حل ہوجاتے ہیں اور پودوں کو غذائیت فراہم کرتے ہیں۔ گھریلو باغبانی کے لیے  کھاد اپنے گھر میں  خودہی  تیار کریں ہمارے گھروں میں روزانہ ہی مختلف قسم کا کچرا جمع ہوجاتا ہے اس کچرے کی ایک بڑی مقدار کچن سے نکلنے والا  کچرا ہے اگر ہم اس کچرے کو ضائع کرنے کی بجائے اس سے اپنے گھر میں ہی  اپنے پودوں کے لئے کھ...

مثبت سوچ سے زندگی سدھاریں

انسانی ذہن پر سوچ کا بہت زیادہ عمل دخل ہوتا ہے ز ندگی کا ہر منظر سوچ سے ہی جنم لیتا ہے۔ سوچ سے انسانی جذبات بنتے ہیں اور اس سے عمل وجود میں آتا ہے سوچ دو طرح کی ہوتی ہے۔ مثبت سوچ اور منفی سوچ یعنی اچھی اور بری سوچ کامیابی اور ناکامی ان ہی دو سوچوں کا نتیجہ ہے۔  خیالات کا ذ ہن میں پیدا ہونا ایک قدرتی رجحان ہے مگر خیال کو سوچ میں تبدیل کرنا انسان کے اختیار میں ہے۔ انسان کے خیالات ہی اس کی شخصیت کو بنانے اور بگاڑنے کا موجب ہے مثبت خیالات مثبت سوچ کی طرف رہنمائی کرتے ہیں مثبت سوچ کامیابی کی طرف لے جانے والی وہ سڑک ہے جس پر چلنے والا اپنی منزل کو پالیتا ہے ۔ہماری تمام حرکات  ہماری سوچ کے زیراثرہوتی ہیں یعنی یہ ہماری سوچ ہی ہےجو ہم سے عوامل سرزد کراتی ہے مثبت سوچ دراصل اچھی اور صحیح سوچ ھےایک مثبت سوچ کا حامل انسان یقیناً مثبت خیالات اور تخلیقات کو ہی منظر عام پر لائے گا۔مثبت سوچ اچھے خیالات کی وجہ بنتی ھے جس کے انسانی صحت پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔زندگی میں کامیابی کا اسی فیصد انحصار  ہمارے رویے پر ہے   اور رویہ  سوچ سے جنم لیتا ہےمثبت سوچ سے مثبت ...