یوم آزادیآیا
اورہمیشہ کی طرح اپنی تمام تر رعنائیوں کے سا تھ گزر بھی گیا ہم نے بہت جوش اور ولولے کے ساتھ اپنے پیارے ملک
کی سترہویں سالگرہ منائی چھو ٹی بڑی سب عمارتوں اور اپنے گھروں ،محلوں اور گلیوں کو سبز جھنڈیوں سے سجا یا گیا چراغاں
کیا گیا اسکولوں میں بچوں کو وطن کی محبت کا درس دیا گیا ملی نغمے اور ترانے گائے گئے ہواؤں میں دل دل
پاکستان کے نغمے گونجے ایک بار پھر اپنے قائد سے تجدید عہدوفا کیا گیا یوم آزادی کی
رات جشن منائے گئے ساری رات چراغاں ہوتا رہا اور پھر یہ رات بھی گزر ہی گئی۔ اگلی
صبح ہماری ساری آزادی سڑکوں ،گلیوں،ندی
نالوں میں رلتی بہتی نظر آئی جو جھنڈیاں ہم نے وطن کی شان میں لڑیوں کی صورت میں
اپنی گلیوں اور گھروں محلوں میں لگائی تھیں ان کی اکثریت ہمارے پاؤں تلے روندی گئی
اور حیرت کی بات کہ کسی کو پرواہ ہی نہیں ہوئی کہ یہ ہمارے پاک وطن کا جھنڈا ہے۔
آزادی کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی ایک قوم خود مختار ہو
کر اپنے فیصلے خود کرسکے اور اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزار سکےسوچنے کی بات ہے
کیا ہم آزاد ہیں ؟ آزاد ی سے سانس لے رہے
ہیں؟ شاید ہماری آزادی کا مطلب صرف قومی
ترانہ گانا اورپرچم کشائی تک محدود ہو کر رہ گیا ہے آزادی کے ستر سال بعد بھی ہمیں
بے روزگاری، غربت،فسادات اور معاشی بدحالی سے نجات نہیں ملی آزادی حاصل کرنے کے
لئے ہمارے بزرگوں نے ہزاروں جتن کئے اس وطن کو حاصل کرنے کے لئے اپنی جانوں کا
نذرانہ پیش کیا تاکہ اپنے ایک آزاد ملک میں آزادانہ معاشرے کی بنیاد رکھی جائے اور
اسلام کے اصولوں پر چلتے ہوئے اپنی حالت کو بہتر بنائیں اللہ بہتر جانتا ہے کہ ہم کیسے مسلمان ہیں البتہ ایک
اچھے پاکستانی نہیں بن سکے سب قوموں ذاتوں برادریوں میں بٹے ہوئے ہیں یہاں کوئی
سندھی ہے، کوئی پنجابی، کوئی پختون کوئی بلوچ تو کوئی مہاجر کہلاتا ہے ستر سال
پرانا زمانہ نہ وہ لوگ نہ وہ سوچ اور نہ وہ خلوص و محبت کچھ بھی تو ہم میں باقی نہ
رہا ۔آج ہم اپنے قائد کے اقوال کو کاغذ پر لکھتے ہیں انھیں رٹو طوطے کی طرح یاد تو
کرتے ہیں لیکن کسی درس گاہ میں عملی طور پر ان اقوال کو اپنانے کا درس نہیں دیا
جاتا ہم بیو قوف اور بدنصیب عوام ستر سال سے سیاستدانوں اور پتلی تماشہ کرنے والوں
کے ہا تھوں میں کھلونا بنے ہوئے ہیں جس اتحاد کے بل بوتے پر یہ ملک حاصل کیا گیا
وہ اتحاد آج کہاں برقرار ہے ؟ آج کسی کو جینے کا حق حاصل نہیں ہے خواتین کے قتل
،زیادتیاں،کبھی غیرت کے نام پر قتل، کبھی جائیداد کے نام پر قتل،خاندانی جھگڑوں کے
نام پر قتل، بچوں کا اغوا، ٹارگٹ کلنگ،ان دہشت گردوں سے آج کوئی بھی محفوظ نہیں ہم
تو ہم ہماری عبادت گاہیں بھی محفوظ نہیں ۔
ہر خوشی و تہوار کے موقع پر دل میں انجانا سا خوف کہیں
کوئی بم دھماکہ نہ ہو جائے کوئی دہشت گردی نہ ہوجائے ہم تو اپنے وطن میں آزادی کے
ساتھ کوئی خوشی کا تہوار بھی نہیں منا سکتےبچوں کے اغواہ کی وارداتیں اتنی بڑھتی
جارہی ہیں کہ اپنے بچوں کو باہر کھیلنا تو بہت دور کی بات اب تو انہیں اسکول
بھیجتے ہوئے دل ڈرنے لگا ہے جب تک بچے خیریت سے گھر واپس نہ آجائیں دل سولی پر
لٹکا رہتا ہے قتل وغارت گری معمولی بات ہے آزادی اظہار کو جرم سمجھا جاتا ہے
خاموشی کو عبادت سمجھ کر لوگ چپ رہتے ہیں اس ملک میں لوگوں کو بنیادی سہولیات تک
میسر نہیں پانی ،بجلی ،گیس کے نہ ہونے کا رونا رویا جاتا ہے کبھی کسی کو انصاف
نہیں ملتا چھو ٹے لوگ تو جرائم کرتے ہی ہیں بڑے لوگ بڑے جرائم کرتے ہیں ہر شخص خوف
وڈپریشن کا شکار ہے ہر طرف نفسیاتی بیماریاں ،افراتفری اور بےچینی نظر آتی ہے بھوک
اور غربت سے تنگ آکر لوگ خودکشی جیسی قبیح لعنت کو بھی گلے سے لگا لیتے ہیں ملک کی
دولت صرف چند بڑےلوگوں کے ہاتھ میں چلی
گئی ہے آج غریب غریب تر اور امیر امیر تر ہوتا جا رہا ہے یہ کونسی آزادی ہے ہم کس بات کا جشن مناتے ہیں
یہ شائد ہم نے کبھی نہیں سوچا ۔ اپنے ملک میں آزاد ہم اس وقت سمجھے جائیں گے جب
واقعی ہم اپنے ملک میں محفوظ ہوں کوئی پریشانی اور خوف کا سایہ بھی ہمیں چھوکر نہ
گزرے کوئی بھوکا نہ سوئے ملک میں جہالت نام کی کوئی شے نہ ہو سب کو جینے کا حق
حاصل ہو معلوم نہیں کبھی ایسا ہوگا ۔ امید پر دنیا قائم ہے ابھی تو فکر انگیز موقع
ہے ہمیں تو آزادی کے دن بیٹھ کر سوچناچاہیئے گزرتے سال کا احتساب کرنا چاہیئے ہم
نے کیا کھویا کیا پا یا ۔ آزادی کا آغاز
اپنی ذات کی ملکیت اوراپنی ذات پر اختیار
سے ہوتا ہے ایک آزاد معاشرے میں ہر
شخص کو نہ صرف اپنے جسم بلکہ اپنی سوچ و
فکر کی آزادی بھی میسر ہوتی ہے۔ آزادی کو محض سیاسی خود مختاری سمجھنا بجائے خود غلامی کی ایک شکل ہے۔ مساوی حقوق ہی
آزادی کی صحیح صورت ہوسکتے ہیں جہاں ہر شخص کے حقوق کو ممکنہ حد تک قانونی تحفظ حاصل ہو۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں