انسانی اعمال کا دارومدار انسان کی نیت پر ہے اور نیت کی
تخلیق سوچوں پر انحصار کرتی ہیں، سوچیں خیالات کی یلغار سے جنم لیتی ہیں اور
خیالات انسان کے ماحول اور صحبت کا عکس ہوتے ہیں۔ ماحول اور صحبتیں اپنانا اور رد
کرنا انسان کے اختیار میں ہوتا ہے۔ اگر
اردگرد احساس محرومی، عدم تحفظ، تنہائی، خود غرضی، جھوٹ، منافقت اور دنیا داری ہو
تو انسانی خیالات منفیت کے سائے میں ہوتے ہیں ایسے میں منفی سوچیں پروان چڑھنے
لگتی ہیں
انسان کی سوچ کا اعلی
معیار ہی درحقیقت اسے آدمیت کے درجے پر فائز کرتا ہے ۔ سوچ میں منفیت زہر قاتل ہے
جو نہ صرف انسان بلکہ پورے معاشرے کو کھوکھلا کردیتی ۔منفی سوچیں جرم کا آغاز ہوتی ہیں اور ذہنی
امراض منفی سوچ کا شاخسانہ ہوتے ہیں۔ دنیا کا ہر فرد ذہنی رکاوٹوں کا شکار رہتا ہے
یہ بات تقریباً ناممکن ہے کہ کسی شخص میں کوئی خامی نہ ہو اور کوئی غلطی سرزد نہ
ہو۔ ہم جیسے لوگوں کی صحبت میں رہتے ہیں
جس طرح کی باتیں پڑھتے اور سنتے ہیں ہمارا دماغ ان باتوں کا اثر قبول کرتا
ہے۔ منفی سوچ کے حامل لوگوں کو اگر زندگی میں چند ناکامیاں دیکھنا پڑجائیں تو وہ اسے پوری زندگی کا روگ بنا لیتے ہیں اس کے بعد
ان کی زند گی کا واحد مقصد اپنی مایوسی و پریشانی کو دوسروں تک منتقل کرنا رہ جاتا
ہے وہ ہر چیز کے منفی پہلو کو نمایاں کرتے ہیں محفل میں مایوسی کی باتیں کرکے اداسی
پیدا کرتے ہیں زندگی کے کسی بھی شعبے میں چلے جائیں مایوسی ان کے ہر عمل سے ظاہر
ہوگی ۔منفی سوچ کا حامل شخص صرف اپنے مسائل کے بارے میں ہی سوچتا رہتا ہے وہ چاہے
گا کہ دوسرے اس کی مدد کریں کبھی خود کسی کی مدد کا سوچے گا بھی نہیں ہر کام میں
پہلے کوئی مسئلہ دیکھے گا لیکن کبھی بھی اپنے مسئلے کو حل کرنے کا نہیں سوچے گا
اسے ہر کام میں درد و تکلیف ہوگی اسلئے کام نہ کرنے کے لا متناہی بہانے
بنائے گا ہمیشہ بولنے کے بعد سوچے گا۔
جھگڑا بحث وتکرار ایسے لوگوں کی شخصیت کا خاصہ ہوتی ہے وہ سمجھ لیتے ہیں کہ سب کچھ
ناممکن ہے کچھ بھی اچھا نہیں ہوسکتا ہے ایسے افراد دوسروں کو دھوکہ بھی دے سکتے
ہیں ان کو بڑی سے بڑی خوشی بھی مطمئن نہیں کرسکتی ہے مستقبل کے اندیشے ان کو تنگ
کرتے رہتے ہیں اپنی ناکامیوں اور مصیبتوں کا ذمہ دار دوسروں کو ٹہراتے ہیں ان کے
پاس وقت کی قدر نہیں ہوتی یہ لوگ چڑ چڑے، غصہ ور، عیب جوئی کرنے والے ، اور دوسروں
میں برائیاں ڈھونڈنے والے ہوتے ہیں۔ منفی سوچ کا حامل شخص منفی عمل کو جنم دیتا
ہے جو لوگ منفی ردعمل کا اظہار کرتے
ہیں وہ منفی سوچ اورمنفی شخصیت کے مالک بن
جاتے ہیں
جب تک منفی سوچ سے چھٹکارہ حاصل نہیں کیا جا ئےزندگی کامیاب
نہیں ہو سکتی ۔منفی سوچ کو جب ہم عقل کی کسوٹی پر پرکھتے ہیں تو اسکی شدت میں کمی
آسکتی ہے کیونکہ یہ سوچ تنگ نظری کی پیداوار ہے اس کی کوئی ٹھوس بنیادی وجہ نہیں
ہوتی ہے دراصل ہم سب لوگ دنیا کو مختلف
انداز سے دیکھتے ہیں ایک ہی شے یا کوئی بات مختلف لوگوں کو مختلف لگے گی کوئی اس
کی تعریف کرے گا کوئی تنقید یہ سمجھ لیا جائے کہ اللہ تعالی نے انسان کے اندر محبت
،امید، صبر، رشک، اور خوشی کی صلاحیت رکھی ہے تو اس صلاحیت کو نفرت ، نا
امیدی،ناشکراپن، حسد، مایوسی جیسے منفی رویہ میں تبدیل کرکے کیوں اپنی زندگی، دنیا
و آخرت خراب کریں نشیب وفراز زندگی کا لازمی جز ہیں حالات ہمیشہ یکساں نہیں رہتے
ان میں تغیر وتبدل ہوتا رہتا ہے جن چیزوں پر اپنا اختیار نہیں ان پر مسلط ہونا بھی
منفیت ہے۔ زندگی کا بہاؤ قانون فطرت کے عین مطابق ہے یہ صرف ہماری مرضی سے نہیں
چلتی اس پر ہر ذی روح کا حق ہے۔ اس حقیقت
کو تسلیم کریں گے تو پریشانیاں خود دور ہو
جائیں گی اگر کبھی ناکامی ہوئی ہے تو اس
پر پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے ہر رات کے بعد ایک نیا سورج طلوع ہوتا ہے نئے دن
کا استقبال کریں جیت آپ کی ہوگی۔ تعمیری اور مثبت سوچ رکھنے والے دوستوں کی تلاش
جاری رکھیں اپنے آپ کو متاثرہ انسان سمجھنے کے بجائے ایک محافظ اور ذمہ دار انسان
محسوس کریں۔ جس طرح خطرہ دیکھ کر انسان اپنی طاقت مجتمع کر لیتا ہے اسی طرح منفی
سوچ کو چیلنج سمجھ کر ایک ردعمل کی طاقت پیدا کی جاسکتی ہے
ہمارا معاشرتی المیہ یہ ہے کہ منفی سوچ پوری قوم پر حاوی
ہے۔ انفرادی طور پر منفی سوچ فوری طور پر وارد ہوجاتی ہے اور مثبت سوچ کے لیے بڑا
سوچنا پڑتا ہے اس کے تدارک کے لیے تعلیم اور ماحول میں انصاف پسندی اور عدل
ومساوات کی ضرورت ہے۔ ایسے ماحول میں جہاں حقوق محفوظ ہوں اور خوشحالی ہوں منفی
خیالات قریب نہیں پھٹکتے۔ ہر شخص اگر مثبت رویوں کو فروغ دے غیر مشروط تعاون اور
ہمت افزائی کے ساتھ دوسروں کے حق کو خوابوں سے نکال کر عملی دنیا میں لے آئے تو
معاشرے کا عمومی رویہ منفی سے مثبت کی جانب مائل ہوجائے گا
I liked it
جواب دیںحذف کریں