نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

انڈہ اور ہماری صحت

 


          کیا انڈہ کھانا ہماری صحت کے لیے ضروری ہے ؟

صحت مند رہنے کے لیے ضروری ہے کہ متوازن غذا کھائی جائے اور ہر غذا اعتدال میں ہی کھائی جائے ۔کچھ غذاؤں کی تاثیر ٹھنڈی ہوتی ہے اور کچھ غذائیں گرم تاثیر والی ہوتی ہیں، مگراس کا مطلب یہ نہیں کہ مخصوص غذاؤں کو مخصوص موسم میں ہی کھایا جائے ۔




انڈوں کو سردی گرمی دونوں موسم میں کھا سکتے ہیں۔ آپ نے بھی یہ ضرور سنا ہوگا کہ  جتنی دور انڈہ اتنی دور اپ کی صحت شاید اس ہی لیے انڈے کو ایک مکمل غذا کہا جاتا ہے۔ انڈہ دیسی ہو تو بہت اچھا ہے ورنہ برائلر مرغی کا انڈہ بھی کھا سکتے ہیں برائلر مرغی کے انڈے میں اتنے نقصان دہ اجزا نہیں ہوتے جتنے اس کے  گوشت میں ہوتے ہیں ۔اس لیے یہ کھانے کے لیے بہتر ہے ۔
اگر آپ اپنی غذا میں روزانہ انڈہ شامل کریں تو بہت سی بیماریوں جن میں بلڈ پریشر ،کولسٹرول،تھائیرائڈ، خشکی (جسم میں کہیں بھی ہو یہاں تک کہ آنکھوں کی خشکی) ،ارتھرائٹس، قوت مدافعت کی کمی،دماغی کمزوری جس میں یادداشت کا جانا بھی شامل ہے ،وٹامن ڈی کی کمی ،کینسر،مینوپاس کے مسائل ،جسمانی کمزوری،جلد ،بال ناخن کے امراض ،ڈپریشن ، آنتوں کے امراض اس کے علاوہ بھی اور دوسرے مسائل و بیماریاں شامل ہیں ۔
انڈے کھانے سے متعلق بہت سی غلط فہمیاں بھی ہیں مثال کے طور پر کہا جاتا ہے کہ   انڈہ گرم ہوتا ہے بلڈ پریشر کے مریضوں کے لیے نقصان دہ ہے یا انڈے سے الرجی ہوتی ہے کولسٹرول میں نقصان دہ ہے کیونکہ   انڈے کی زردی کولسٹرول ہے دل کے امراض  میں بھی بہت سے لوگ انڈہ کھانے سے اجتناب کرتے ہیں۔
یہاں یہ بات جان لیں کہ انڈے کی سفیدی پروٹین ہے اور زردی کولسٹرول اور یہ وہ کولسٹرول ہے جس کی جسم کو ضرورت ہوتی ہے یعنی اچھا کولسٹرول اس کولسٹرول کی کمی سے ہی خراب کولسٹرول بڑھتاہے۔
انڈے میں موجود  وٹامن اے اینٹی آکسیڈنٹ ہے جو کہ  جلد، انکھوں ،قوت مدافعت  امیونٹی کے لیے اچھا ہے ۔
وٹامن ڈی آنتوں ، نظام ہاضمہ ، ہڈیوں  اور  ڈپریشن کے لیے مفید ہے ۔ آٹو امیون ڈزیز وٹامن ڈی کی کمی سے ہوتی ہے کیونکہ اس کی کمی سے ایمیونیٹی کم ہوتی ہے جب وٹامن ڈی کی کمی نہیں ہوگی تو یہ بیماریاں بھی نہیں ہوں گی ۔
وٹامن کے ٹو کے بغیر وٹامن ڈی اپنا  اثر نہیں دکھا سکتا دوران خون کے لیے وٹامن کےٹوضروری ہے یہ خون کو جمنے سے بھی  روکتا ہے۔
وٹامن ای سوزش کے لیے مفید ہے ۔
اس میں موجود ایک جز  کولن فیٹی لیور اور دماغ  کے لیے بہترین ہے ۔
انڈے کی زردی میں موجود وٹامن بی  خون بناتا ہے ۔
  انڈے کی سفیدی میں  پروٹین میگنیشیم ،پوٹاشیم وٹامن ڈی ون اور ڈی ٹو پایا جاتا ہے یہ زردی سے زیادہ سفیدی میں  موجود ہے ۔
انڈہ جب بھی کھائیں زردی سفیدی سمیت پورا انڈہ کھائیں کیونکہ جب صرف سفیدی کھائیں گے تو انسولین انڈیکس زیادہ تیزی سے اوپر جاتا ہے لیکن جب پورا انڈہ کھائیں گے تو انسولین انڈیکس تیزی سے اوپر نہیں جاتا ۔کوشش کریں کہ  صبح ناشتہ میں روزانہ دو انڈے ضرور کھائیں ۔
تھائیرائڈ کے مریضوں کو ایک جز سلینیم کی ضرورت ہوتی ہے  تاکہ T3۔  T4میں تبدیل ہو جائے اور  سلینیم انڈے میں پایا جاتا ہے۔
جگر کو اپنا کام کرنے کے لیے سلینیم کے ساتھ  زنک کی بھی ضرورت ہوتی ہے اگر جگر میں سلینیم نہیں ہوگا تو تھائیرائڈ ٹھیک نہیں ہوگا ۔
انڈے کولین کے بہترین غذائی ذرائع میں سے ایک ہیں۔ یہ غذاییت جس کے بارے میں بہت کم بات کی جاتی ہے یہ خلیوں کی جھلیوں کی تشکیل اور یادداشت سمیت دماغی افعال کے لیے بہت ضروری ہوتی ہے۔یہ خاص طور پر حمل اور دودھ پلانے والی ماؤں کے لیے اہم ہے، جب دماغ کی معمول کی نشوونما کے لیے کولین کی مناسب فراہمی ضروری ہوتی ہے۔
روزانہ دو انڈوں کا استعمال 35 سے 40 سال کی عمر کی خواتین میں ایج اسپاٹس (بڑھاپے کے نشانات) کو غائب جبکہ جلد کو ہموار  کرتا ہے، اسی طرح مردوں میں آنکھوں کے گردجھریاں نمایاں حد تک کم ہوجا تی ہیں۔
یہاں انڈوں  کے بارے میں مختصر ہی بتایا ہے اس مکمل غذا کے بے شمار فوائد ہیں صبح ناشتہ میں اس پروٹین سے بھرپور غذا کو ضرور لیں روزانہ دو سے تین انڈے لیے جائیں جن میں مختلف ہرے پتوں اور سبزیوں کو مکس کرکے  آملیٹ ضرور شامل ہو تاکہ صبح ہی تمام دن کے وٹامنز اور منرلز کسی حد تک پورے ہو جائیں باقی غذائیت دن بھر کی دوسری خوراک سے حاصل کی جاسکتی ہے  ۔

۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

گملوں میں آسانی سے سبزیاں اگائیں ۔

    گھر بیٹھےمدافعتی نظام کو متحرک   رکھنے والی قدرتی خوراک حاصل کریں۔ گھریلو باغبانی نہ صرف ایک   صحت مند سرگرمی ہے بلکہ ہم اپنے   گھر میں ہی آلودگی اور کیمیکل کے اثرات سے پاک سبزیوں کا لطف اٹھا سکتے ہیں۔ اگر شوق ہے تو اس مضمون کے ذریعے موسم گرما میں سبزیوں کی   گھریلو سطح پر بوائی کی معلومات حاصل کریں۔اور حقیقت میں   مدافعتی نظام کو متحرک رکھنے والی قدرتی خوراک حاصل کریں۔ موسم گرما کی سبزیاں اگانے کے لیے پندرہ فروری سے بہترین وقت شروع ہوجاتا ہے فروری سے مارچ اپریل تک سبزیوں کے بیج بوئے جاسکتے ہیں کچھ علاقوں میں اپریل کے بعد بھی بیج بوسکتے ہیں لیکن سخت گرمی اور لو میں بیجوں سے پودے نکلنا مشکل ہوتا ہے۔جن گملوں میں سبزی اگائی جائے وہ گملہ بارہ انچ سے بڑا ہو۔   گملہ جتنا بڑا ہوگا پودے کی نشوونما بھی اچھی ہوگی اور سبزی بھی وافر مقدار میں میسر آسکے گی سبزیوں کے لیے موسم گرما میں صبح کی پانچ سے چھ گھنٹے کی دھوپ لازمی ہوتی ہے۔ سبزی کے پودے کو صبح ایک بار پانی لازمی دیں تیز دھوپ اور لو سے بچاؤ کے   لیے گرین نیٹ کا استعمال بھی کرسکتے ہیں پودے کو گ...

معیاری سبزی کے لیے نامیاتی کھاد کی تیاری

زمین کی زرخیزی بڑھانے کے لیے مختلف قسم کی کھاد کا  استعمال ضروری ہوتا ہے۔کھاد میں دیگر کار آمد اشیا کے علاوہ نائٹروجن کے مرکبات بھی موجود ہوتے ہیں۔ جب پودوں کو پانی دیا جاتا ہے تو یہ مرکبات پانی میں حل ہو جاتے ہیں اور پھر پودے کی جڑیں اُن کو چوس کر تنے، شاخوں اور پتوں وغیرہ تک پہنچا دیتی ہیں۔ جانوروں کے فضلے سے جو کھاد خود بخود بن جاتی ہے اُس کی مقدار محدود ہے اور تمام ضروریات کو پورا نہیں کر سکتی ۔ لہٰذا بعض کیمیائی مرکبات مصنوعی کھاد کے طور پر استعمال کیے جاتے ہیں  جن کے ذیلی اثرات انسانی جسم پر مضر ردعمل  پیدا کرسکتے ہیں۔ البتہ نامیاتی کھاد  کی تیاری سے اس خرابی سے محفوظ رہا جاسکتا ہے جس میں قدرتی طور پر  نائٹروجن کے مرکبات حل ہوجاتے ہیں اور پودوں کو غذائیت فراہم کرتے ہیں۔ گھریلو باغبانی کے لیے  کھاد اپنے گھر میں  خودہی  تیار کریں ہمارے گھروں میں روزانہ ہی مختلف قسم کا کچرا جمع ہوجاتا ہے اس کچرے کی ایک بڑی مقدار کچن سے نکلنے والا  کچرا ہے اگر ہم اس کچرے کو ضائع کرنے کی بجائے اس سے اپنے گھر میں ہی  اپنے پودوں کے لئے کھ...

مثبت سوچ سے زندگی سدھاریں

انسانی ذہن پر سوچ کا بہت زیادہ عمل دخل ہوتا ہے ز ندگی کا ہر منظر سوچ سے ہی جنم لیتا ہے۔ سوچ سے انسانی جذبات بنتے ہیں اور اس سے عمل وجود میں آتا ہے سوچ دو طرح کی ہوتی ہے۔ مثبت سوچ اور منفی سوچ یعنی اچھی اور بری سوچ کامیابی اور ناکامی ان ہی دو سوچوں کا نتیجہ ہے۔  خیالات کا ذ ہن میں پیدا ہونا ایک قدرتی رجحان ہے مگر خیال کو سوچ میں تبدیل کرنا انسان کے اختیار میں ہے۔ انسان کے خیالات ہی اس کی شخصیت کو بنانے اور بگاڑنے کا موجب ہے مثبت خیالات مثبت سوچ کی طرف رہنمائی کرتے ہیں مثبت سوچ کامیابی کی طرف لے جانے والی وہ سڑک ہے جس پر چلنے والا اپنی منزل کو پالیتا ہے ۔ہماری تمام حرکات  ہماری سوچ کے زیراثرہوتی ہیں یعنی یہ ہماری سوچ ہی ہےجو ہم سے عوامل سرزد کراتی ہے مثبت سوچ دراصل اچھی اور صحیح سوچ ھےایک مثبت سوچ کا حامل انسان یقیناً مثبت خیالات اور تخلیقات کو ہی منظر عام پر لائے گا۔مثبت سوچ اچھے خیالات کی وجہ بنتی ھے جس کے انسانی صحت پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔زندگی میں کامیابی کا اسی فیصد انحصار  ہمارے رویے پر ہے   اور رویہ  سوچ سے جنم لیتا ہےمثبت سوچ سے مثبت ...